اقــول : فــــ ۱ ھذا تعد فوق مامر فان مفادہ ان مالم یرجح فیہ دلیل الامام فللقاضی ومثلہ المفتی العدول عنہ الی قول غیرہ وان لم یذیل ایضا بترجیح فانہ بنی الحکم بعدم العدول علی وجود وعدم وجود ترجیح دلیلہ وعدم ترجیح قول غیرہ فمالم یجتمعا حل العدول ولم یقل باطلاقۃ الثقات العدول فانہ یشمل مااذارجعا اولم یرجع شیئ منھما والعمل فیھما بقول الامام لاشک مر ا لاول فی السابعۃ (۲) وقال سیدی فــ ۲ط فی زکاۃ الغنم مسألۃ صرف الہالک الی العفو من المعلوم انہ عند عدم التصحیح لا یعدل عن قول صاحب المذھب۱؎
اقول : پہلے جو گز ر چکا یہاں اس سے بھی آگے تجاوز کیا ، کیوں کہ اس کا مفاد یہ ہے کہ جہاں دلیل امام کو تر جیح نہ دی گئی وہاں قاضی اور اسی طرح مفتی کو قول امام سے دوسرے کی قول کی طر ف عدول جائز ہے اگرچہ اس دوسرے پر بھی ترجیح کا نشان نہ ہو ، یہ مفاد اس طر ح ہو ا کہ انہوں نے عدم عدول کے حکم کی بنیادایک وجود او رایک عدم پر رکھی ہے (۱) دلیل امام کی ترجیح کا وجود ہو (۲) او رقول غیر کی ترجیح کا عدم ہو ، تو جب تک دو نوں چیز یں جمع نہ ہوں عدول جائز ہوگا ، حالانکہ ثقات عدول (معتمد و مستند حضرات ) اس اطلاق کے قائل نہیں ، کیوں کہ ان دو صورتوں کو بھی شامل ہے (۱) قول امام اور قول غیر دونوں کو ترجیح ملی ہو (۲) دو نوں میں سے کسی کو ترجیح نہ دی گئی ہو بلاشبہ ان دونوں صورتوں میں قول امام پر ہی عمل ہوگا ، اول کا بیان مقدمہ ہفتم میں گزرا ، دو م سے متعلق ملاحظہ ہو ، سیدی طحطاوی باب زکاۃ الغنم میں مسئلہ صرف الہالک الی العفو کے تحت رقم طراز ہیں معلوم ہے کہ عدم تصحیح کی صورت میں صاحب مذہب کے قول سے عدول نہ ہوگا ،
(۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار کتاب زکوٰۃ باب زکوۃ الغنم المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۴۰۲)
فــــ ۱ : معروضۃ علیہ و علی العلامۃ ابن الشبلی
فــــ ۲ : فائدہ : حیث لا تصحیح لایعدل عن قول الامام۔
قــولـہ فی المنحۃ اصحاب المتون قدیمشون علی غیر مذھب الامام۱؎ قولہ علامہ شامی:
منحۃ الخالق میں متون مذہب کے مصنفین بعض اوقات مذہب امام کے سوا کوئی اور اختیار کرتے ہیں۔
(۱؎ منحۃ الخالق علی بحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)
اقول : نعم فــــ ۱فی احدی الوجوہ الستۃ وھو عین قول الامام اما فی غیرھا فـــ ۲ فان مشی بعضھم لم یقبل کما سیأتی فی مسألۃ الشفق ومثلھا تفسیرا لمصر کما یعلم من الغنیۃ شرح المنیۃ وقد فصلناہ فی فتاونا بما لا مزید علیہ اما ان یمشوا قاطبۃ علی خلاف قولہ من دون الحوامل الست فحاشا ، و من ادعی فلیبرز مثالا لہ ولو واحدا۔
ہاں چھ صورتوں میں سے کسی ایک میں ایسا کرتے ہیں ، یہ بعینہ قول امام ہوتا ہے ان کے علاوہ صورتوں میں اگر کوئی مصنف کسی دوسرے مذہب پر چلے تو قبول نہ کیا جائے گا ، جیسا کہ مسئلہ شفق میں اس کا بیان آرہا ہے ، اسی طر ح تفسیر '' مصر '' کا مسئلہ ہے جیسا کہ غنیہ شرح منیہ سے معلوم ہوتا ہے ، اور ہم نے اپنے فتا وی میں اسی کی اتنی تفصیل کی ہے جس پر اضافے کی گنجائش نہیں اب رہی یہ صورت کہ ان چھ اسباب کے بغیر تمام اصحاب متون قول امام کی مخالفت پر گام زن ہوں تو ایسا نہیں ہوسکتا ، اگر کوئی دعوی رکھتا ہے تو اس کی کوئی ایک ہی مثال پیش کردے،
فــــ ۱ : معروضۃ علیہ و علی العلامۃ ش
فــــ ۱ : فائدہ مشی متون علی خلاف قول الامام لا یقبل ۔
قولہ : علامہ شامی ، جب مشائخ مذہب نے اس دلیل کے فقدان کی وجہ سے جو ان کے حق میں شرط ہے، قول اما م کے خلاف فتوی دے دیا تو ہم ان ہی کا اتباع کریں گے اس لئے کہ انہیں زیادہ علم ہے
(۲؎ منحۃ الخالق علی بحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)
اقول: اولا ھو اعلم فــــ ۱ منھم ومن اعلم من اعلم من اعلم منھم فای الفریقین احق بالا تباع۔
امام کو ان سے بھی زیادہ علم ہے او ران سے اعلم سے اعلم سے بھی زیادہ ، تو زیادہ قابل اعتماد کون ہے ؟
فــــ ۱ : معروضۃ علیہ
وثـــانــیا انظر الثانیۃ فــــ ۲ الدلیل فی حقھم التفصیلی وقد فقدوہ فی حقنا الاجمالی وقد وجدناہ فکیف نتبعھم ونعدل من الدلیل الی فقدہ ۔
مقدمہ دوم ملاحظہ ہو، ان کے حق میں دلیل تفصیلی ہے جو انہیں نہ ملی ، اور ہمارے حق میں اجمالی ہے جو ہمارے پاس موجود ہے تو کیسے ہم ان کی پیروی کریں اور دلیل چھوڑ کر فقدان دلیل کی طرف جائیں ؟
فــــ ۲ : معروضۃ علیہ
قولہ کیف یقال یجب علینا الافتاء بقول الامام لفقد الشرط وقد اقرانہ فقد الشرط ایضا فی حق المشائخ۱؎
علامہ شامی : یہ بات کیسے کہی جاتی ہے کہ ہمارے اوپر قول امام پر ہی فتوی دیناواجب ہے اس لئے کہ ہمارے حق میں (قول امام پر افتا ء کی) شرط مفقود ہے حالاں کہ یہ بھی اقرار ہے کہ وہ شرط مشائخ کے حق میں بھی مفقود ہے ۔
(۱؎ منحۃ الخالق علٰی بحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)
اقول شبھۃ فـــ۳ــ ۱ کشفناھا فی الثالثۃ۔
اقول : یہ محض ایک شبہ ہے جسے ہم مقدمہ سوم میں منکشف کر آئے ہیں ۔
توکیا یہ خیال ہے کہ ان حضرات نے کسی ناروا امر کا ارتکاب کیا ؟
(۱؎ منحۃ الخالق علٰی بحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)
اقول : فــــ ۴ مبنی علی الذھول عن فرق الموجب فی حقنا وحقھم وان شئت الجمع مکان الفرق فالجامع ان کل من فارق الدلیل فقد اتی منکرا فدلیلنا قول امامنا وخلافنا لہ منکر ودلیلھم ماعن لھم فی المسألۃ فمصیرھم الیہ لاینکر ۔
اقول: واجب کرنے والی چیز ہمارے حق میں اور ہے ان کے حق میں اور ، اعتراض مذکور اسی فرق سے ذہول پر مبنی ہے ، اگر مقام فر ق کو جمع کرنا چاہیں تو جامع یہ ہے کہ جو بھی دلیل سے الگ ہوا وہ منکر وناروا کا مرتکب ہوا ، اب ہماری دلیل ہمارے اما م کا قول ہے او رہمارے لئے اس کی مخالفت ناروا ہے ، اور ان حضرات کی دلیل وہ ہے جو کسی مسئلہ میں ان پر منکشف ہو، تو اس دلیل کی طرف ان کا رجوع نارو ا نہیں ۔
فــــ ۴ : معروضۃ علیہ
قولہ وقد مشی علیہ الشیخ علاؤالدین۱؎۔قولہ : علامہ شامی:
اسی پر شیخ علاء الدین گام زن ہیں
(۱؎ منحۃ الخالق علی حاشیہ بحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)