الثالث لم یقع والثانی ظاہر المنع وکیف یعدل عن قول الامام المرجح من عامۃ اصحاب الترجیح بفتوی رجل واحد قال فی الدر فی تنجس البئر قالا من وقت العلم فلا یلزمھم شیئ قبلہ قیل وبہ یفتی ؎۱ اھ
یہ تیسری صورت (سکوت ) واقع ہی نہیں اور دوسری صورت میں کلام ابن شلبی پر منع ظاہر ہے (یہ وہ صورت ہے کہ ایک شخص نے قول امام کے بجائے قول دیگر پر فتوی دیا باقی تمام حضرات قول امام ہی پر فتوے دیتے ہیں اور اس مفتی کے مخالف ہیں) تمام اصحاب تر جیح کی جانب سے تر جیح یافتہ قول امام سے محض ایک شخص کے فتوے کے باعث انحراف کیوں ہو گا ؟ در مختار کے اندر کنواں ناپاک ہونے کے مسئلے میں صاحبین فرماتے ہیں جب سے علم ہوا اس وقت سے ناپاک مانا جائے گا تو اس سے قبل لوگوں کو کچھ لازم نہ ہوگا کہا گیا : اسی پر فتوی ہے ۔اھ
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ فصل فی البئر دار احیاء التراث العربی بیروت۱ / ۱۴۶)
قال ش قائلہ صاحب عــــہ الجوھرۃ وفی فتاوی العتابی قولھما ھو المختار اھ۲؎
علامہ شامی فرماتے ہیں ، اس کے قائل صاحب جو ھرہ ہیں ، فتاوی عتابی میں ہے قول صاحبین ہی مختار ہے ۔ اھ
عــہ : اقول لم ارہ فیھا لعلہ فی سراجہ الوہاج ، واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ ۔ اقول : میں نے جوہرہ میں اسے نہ دیکھا ، شاید یہ ان کی سراج وہاج میں ہو ۱۲ منہ
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ فصل فی البئر دار احیاء التراث العربی بیروت۱ / ۱۴۶)
قال ط وانما عبر بقیل لرد العلامۃ قاسم لہ لمخالفتہ لعامۃ الکتب فقد رجح دلیلہ فی کثیر منھا وھو الاحوط نھراھ۳ ؎
طحطاوی فرماتے ہیں : قیل (کہا گیا ) سے تعبیر اس لئے فرمائی کہ علامہ قاسم نے اس کی تردید کی ہے کیونکہ یہ عامہ کتب کے خلاف ہے کثیر کتا بو ں میں دلیل اما م کو ترجیح دی گئی ہے وہی احوط بھی ہے ، نہر ، اھ
(۳؎ حاشیہ طحطاوی علی الدرالمختار فصل فی البئر المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ / ۱۴۶)
بل قال فی الدر لاحد بشبھۃ العقد عندالامام کوط ء ۲ محرم نکحھا وقالا ان علم الحرمۃ حد و علیہ الفتوی خلاصۃ لکن المرجح فی جمیع الشروح قول الامام فکان الفتوی علیہ اولی قالہ قاسم فی تصحیحہ لکن فی القھستانی عن المضمرات علی قولھما الفتوی اھ۱؎
بلکہ درمختار میں ہے : امام کے نزدیک شبہ عقد کی وجہ سے حد نہیں جیسے اس محرم سے وطی کی صورت میں جس سے نکاح کرلیا ہو ، صاحبین فرماتے ہیں اگر حرمت سے آگا ہ ہے تو حد ہوگی ، اسی پرفتوی ہے ، خلاصہ لیکن تمام شروح میں تر جیح یافتہ قول امام ہی ہے تو اس پر فتوی اولی ہے ،یہ علامہ قاسم نے اپنی تصحیح میں لکھا لیکن قہستانی میں مضمرات سے نقل ہے کہ صاحبین ہی کے قول پر فتوی ہے۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الحدود باب الوط ء الذی یوجب الحد الخ مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۳۱۹)
قال ش استدراک علی قولہ فی جمیع الشروح فان المضمرات من الشروح وفیہ ان مافی عامۃ الشروح مقدم۲؎ اھ
علامہ شامی فرماتے ہیں انکے لفظ '' تمام شروح'' پر یہ استدارک ہے اس لئے کہ مضمرات بھی شرو ح میں سے ہے ، اس پر کلام یہ ہے کہ جو عامہ شرو ح میں ہے مقدم وہی ہوگا ۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحدود باب الوط ء الذی یوجب الحد الخ دار احیاء التراث العربی بیروت ۳ / ۱۵۴)
فھھنا جعلت الفتاوی علی قولھما الفتوی و وافقھا بعض الشروح المعتمدۃ ولم یقبل لان عامۃ الشروح رجحت دلیلہ بقی الاول وھو مسلم ولا شک ولا یوجد الا فی احدی الصور الست وح یکون عدولا الی قولہ لاعنہ کما علمت
یہا ں کتب فتاوی نے فتوی قول صاحبین پر رکھا ، بعض معتمد شروح نے بھی ان کی موافقت کی مگر اسے قبول نہ کیا گیا اس لئے کہ عامہ شروح نے دلیل امام کو ترجیح دی ۔ رہ گئی پہلی صورت (کہ دیگر مشائخ بھی اس مفتی کے ہم نوا ہیں جس نے بتایا کہ فتوی امام کے علاوہ کسی اور کے قول پر ہے ) یہ بلا شبہ مسلم ہے ، اور اس کا وجود ان ہی چھ صورتوں میں سے کسی ایک میں ہوگا ، اس صورت میں خود قول امام کی جانب رجوع ہوتا ہے ، اس سے انحراف نہیں ہوتا جیسا کہ معلوم ہوا ۔
وثــــانـــــیا بوجہ فــــ اٰخر ارأیت ان قال الامام قولا وخالفہ احد صاحبیہ ولا روایۃ عن الاٰخر فافتی احد من المشائخ بقول الصاحب فان وافقہ الباقون فقد مر اوخالفوہ فظاھر وکذا ان خالف بعضھم ووافق بعضھم لمامر فی السابعۃ
وثــــانـــــیا : بطرز دیگر ، بتائے کہ اگر امام نے کوئی با ت کہی او رصاحبین میں سے ایک نے ان کی مخالفت کی ، دو سرے سے کوئی روایت نہ آئی اب مشائخ میں سے کسی نے اس ایک صاحب کے قول پر فتوی دیا ، تو اگر باقی مشائخ نے بھی موافقت فرمائی تو اس کا بیان گزرا یا د یگر حضرات نے مخالفت فرمائی تو اس کا حال ظاہر ہے ۔ یوں ہی اگر بعض نے مخالفت کی اور بعض نے موافقت کی ، وجہ مقدمہ سابعہ میں بیان ہوئی ،
فــــ ۳ : معروضۃ علیہ
اما ان لم یرد عن الباقیین شیئ وھی الصورۃ التی انکرنا وقوعھا فھل یجب ح اتباع تلک الفتوی ام لا علی الثانی این قولکم علینا اتباع ما صححوہ کمالو افتوا فی حیاتھم فان فتوی الحیاۃ واجبۃ العمل علی المستفتی وانکان المفتی واحدا لم یخالفہ غیرہ ولیس لہ التوقف عن قبولھا حتی یجتمعوا اویکثروا وعلی الاول لم یجب العدول عن قول الامام الی قول صاحبہ الا لترجح رأی صاحبہ بانضمام رأی ھذا المفتی الیہ اذلیس ھذا الافتاء قضاء یرفع الخلاف بل ولا افتاء مفت لمن اتاہ من مستفت انما حاصلہ ان الرأی الفلانی ارجح عندی ، فاذن ترجح رأی احد الصاحبین بانضمام رأی الاٰخرا علی واعظم لان کلامنھما اعلم واقدم من جمیع من جاء بعدھما من المرجحین فکل ما خالف فیہ الامام صاحباہ وجب فیہ ترک قولہ الی قولھما وھو خلاف الاجماع ،
لیکن اگر با قی حضرات سے کچھ وارد ہی نہ ہو ا یہی وہ صورت ہے جس کے وقوع سے ہم نے انکار کیا ، تو اس وقت اس فتوے کا اتباع واجب ہے یا نہیں ؟ بر تقدیر ثانی آپ کا وہ قول کہاں گیا کہ ہمارے ذمہ اسی کی پیروی ہے جسے مشائخ نے صحیح قرار دے دیا جیسے اس صورت میں ہوتا جب وہ ہمیں اپنی حیات میں فتوی دیتے اس لئے کہ زندگی کا فتوی مستفتی پر واجب العمل ہے اگرچہ مفتی ایک ہی ہو ، جس کا دوسرا کوئی مخالف نہ ہو ، اور مستفتی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس فتوے کو قبول کرنے سے تو قف کر ے یہاں تک کہ سب فتوی دینے والے مجتمع ہوجائیں یا کثیر ہوجائیں تب مانے۔
بر تقدیر اول (یعنی قول امام کو چھوڑ کر دیگر کو ترجیح دینے والے فتوے کی اتباع واجب ہے ) قول اما م چھوڑ کر ان کے شاگرد کے قول کو لینا کیوں واجب ہوا؟صرف اس لئے کہ ان کے شاگرد کی رائے اس مفتی کی رائے سے مل کر راجح ہوگئی ، کیونکہ یہ فتوی کوئی اختلاف ختم کرنے والا فیصلہ قاضی نہیں، بلکہ اس کی حیثیت اس افتا کی بھی نہیں جو آکر سوال کرنے والے کسی مستفتی کے لئے کسی مفتی سے صادر ہوا ، اس فتوے کا حاصل صرف اس قدر ہے کہ فلاں رائے میرے نزدیک زیادہ راجح ہے جب ایسا ہے تو اگر صاحبین میں سے ایک صاحب کی رائے کے ساتھ دو سرے صاحب کی رائے بھی مل جائے تو اس کا راجح ہونا (کسی بعد کے مفتی کی رائے ملنے والی صورت کی بہ نسبت) زیادہ بالا تر اور عظیم تر ہوگا ، اس لئے کہ صاحبین میں سے ہر ایک اپنے بعد آنے والے تمام مرجحین سے زیادہ علم والے اور زیادہ مقدم ہیں تو یہ کہئے کہ جہاں بھی صاحبین نے امام کی مخالفت کی ہو وہاں امام کا قول چھوڑ کر صاحبین کا قول لینا واجب ہے ، یہ خلاف اجماع ہے (کوئی اس کا قائل نہیں )
وثــــــالـثا علی فــــ التسلیم معکم ابن الشلبی وانظرو امن معنا اٰخر الکلام
وثــــــالـثا : بر تقدیر تسلیم آپ کے ساتھ صر ف ابن ا لشلبی ہیں ، او رآخر کلام میں دیکھئے ہمارے ساتھ کون لوگ ہیں۔
فــــ : معروضۃ علیہ
قولہ فلیس للقاضی ان یحکم بقول غیرا بی حنیفۃ فی مسألۃ لم یرجح فیھا قول غیرہ ورجحوا فیھا دلیل ابی حنیفۃ علی دلیلہ۔
علامہ شامی : قاضی کو غیر امام کے قول پر کسی ایسے مسئلہ میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں جس میں غیر امام کے قول کو تر جیح نہ دی گئی ہو او رخود امام ابو حنیفہ کی دلیل کو دوسرے کی دلیل پر تر جیح ہو ۔