اقول : اولا خدا آپ پررحم فرمائے ، بتائے اگر امام دنیا میں باحیات ہوتے اور یہ حضرات بھی با حیات ہوتے ، پھر امام بھی فتوی دیتے اور یہ بھی فتوی دیتے تو آپ کس کی تقلید کرتے ؟
وثانیا (۲) انما کلام العلامۃ فیما فیہ الرجوع الی فتوی المشائخ حیث لاروایۃ عن الامام اواختلف الروایۃ عنہ او وجد شیئ من الحوامل الست المذکورۃ فی الخامسۃ فانہ عین تقلید الامام۔
علامہ قاسم کا کلام صرف ان مسائل سے متعلق ہے جن میں فتوے مشائخ کی جانب ہی رجوع کرنا ہے اس لئے کہ ان مسائل میں امام سے کوئی روایت ہی نہیں ، یا امام سے روایت مختلف آئی ہے ،یا ان چھ اسباب میں سے کوئی سبب موجود ہے جن کا ذکر مقدمہ پنجم میں گزرا کہ یہ تو خود اما م ہی کی تقلید ہے ۔
وانا آت فــ۳ علیہ ببینۃ عادلۃ منکم ومن نفس العلامۃ قاسم فھو اعلم بمرادہ قلتم فی شرح فــ۴ عقودکم قال العلامۃ المحقق الشیخ قاسم فی تصحیحہ ان المجتھدین لم یفقدوا حتی نظر وافی المختلف و رجحو او صححوا فشہدت مصنفاتھم بترجیح قول ابی حنیفۃ والاخذ بقولہ الافی مسائل یسیرۃ اختاروا الفتوی فیھا علی قولھما او قول احدھما وانکان الاٰخر مع الامام کما اختاروا قول احمدھما فیما لانص فیہ للامام للمعانی التی اشار الیھا القاضی بل اختاروا قول زفرفی مقابلۃ قول الکل لنحو ذلک وترجیحا تھم وتصحیحا تھم باقیۃ فعلینا اتباع الراجح والعمل بہ کما لوافتوافی حیاتھم اھ ۱؎
میں اس پر آپ ہی کی اور خود علامہ قاسم کی شہادت عادلہ پیش کرتا ہوں انہیں اپنی مراد کا زیادہ علم ہے شرح عقود میں آپ رقم طر از ہیں کہ علامہ محقق شیخ قاسم نے اپنی تصحیح میں لکھا ہے مجتہدین ہمیشہ ہوتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مقام اختلاف میں نظر کر کے تر جیح وتصحیح کاکام سرانجام دیا ، ان کی تصنیفات شاہد ہیں کہ تر جیح امام ابو حنیفہ ہی کے قول کو حاصل ہے اور ان ہی کا قول ہر جگہ لیا گیا ہے ؛مگر صرف چند مسائل ہیں جن میں ان حضرات نے صاحبین کے قول پر ، یا صاحبین میں سے کسی ایک کے قول پر ، اگرچہ دوسرے صاحب امام کے ساتھ ہوں فتوٰی اختیار کیا ہے جیسے انہوں نے صاحبین میں سے کسی ایک کا قول اس مسئلے میں اختیار کیا ہے جس میں امام سے کوئی صراحت وارد نہیں ، اس اختیار کے اسباب وہی ہیں جن کی جانب قاضی نے اشارہ کیا ، بلکہ کسی ایسی ہی وجہ کے تحت انہوں نے سب کے قول کے مقابلہ میں امام زفر کا قول اختیار کیا ہے ، ان حضرات کی ترجحیں اور تصحیحیں آج بھی باقی ہیں تو ہمارے ذمے یہی ہے کہ راجح کی پیر وی کریں او راسی پر کا ربند ہوں جیسے ان حضرات کے اپنی حیات میں ہمیں فتوے دینے کی صورت میں ہوتا ،اھ
(۱؎ شرح عقود رسم المفتی،رسائل ابن عابدین،سہیل اکیڈمی لاہور ۱ /۲۷)
فــــ ۳ : معروضۃ علیہ فــــ ۴: معروضۃ علیہ
وکلام الامام القاضی سیأتی عند سرد النقول بتوفیق اللہ تعالی صرح فیہ ان العمل بقولہ رضی اللہ تعالی عنہ وان خالفاہ الالتعامل بخلافہ او تغیرالحکم بتغیر الزمان فتبین وللہ الحمد ان قول العلامۃ قاسم علینا اتباع مارجحوہ انما ھو فیما لانص فیہ للامام ویلحق بہ ما اختلف فیہ الروایۃ عنہ اوفی احدے الحوامل الست فاحفظہ حفظا جیدا ففیہ ارتفاع الحجب عن آخرھا وللہ الحمد حمدا کثیرا طیبامبارکا فیہ ابدا وھذہ عبارۃ العلامۃ قاسم التی اوردھا السید ھھنا ملتقطا من اولہا واٰخر ھا لو تأملھا تما مالما کان لیخفی علیہ الامر وکثیرا ما تحدث امثال الامور لاجل الاقتصار وباللہ العصمۃ ۔
امام قاضی کا کلام جلد ہی بیان نقول کے سلسلے میں بتو فیقہ تعالی آرہا ہے ، اس میں یہ تصریح ہے کہ عمل قول امام رضی اللہ تعالی عنہ پر ہوگا اگرچہ صاحبین ان کے خلاف ہو ں مگر اس صورت میں جب کہ تعامل اس کے بر خلاف ہو یا تغیر زمان کی وجہ سے حکم بدل گیا ہو تو بحمد ہ تعالی یہ روشن ہوگیا کہ علامہ قاسم کا ارشاد (ہمارے ذمہ اسی کی پیروی ہے جسے ان حضرات نے راجع قرار دے دیا ) صرف اس صورت سے متعلق ہے جس میں امام سے کوئی صراحت وارد نہ ہو ، او ر اسی سے ملحق وہ صورت بھی ہے جس میں امام سے روایت مختلف آئی ہو یا ان چھ اسباب میں سے کوئی ایک موجود ہو اسے خوب اچھی طر ح ذہن نشین کر لینا چاہئے اس لئے کہ اس سے سارے پردے بالکل اٹھ جاتے ہیں ، اور خدا ہی کے لئے حمد ہے کثیر ، پاکیزہ ، بابرکت ، دائمی حمد ۔علامہ قاسم کی عبارت جو علامہ شامی نے اس مقام پر اول آخر سے التقاط کر کے نقل کی ہے اگر ان کی کامل عبارت پر غور کر لیتے تو حقیقت امر ان پرپو شیدہ نہ رہ جاتی ، با رہا اس طر ح کا خلل محض اقتصار کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے ، وباللہ العصمۃ ، اور محفو ظ رکھنا خدا ہی سے ہے ،
وثالثا علی فــــ۱ فرض الغلط لواراد العلامۃ قاسم ما تریدون لکان محجوجا بقول شیخہ المحقق حیث اطلق الذی نقلتموہ وقبلتموہ من ردہ مرارا وعلی المشائخ افتاء ھم بقولھا قائلا انہ لایعدل عن قولہ الالضعف دلیلہ۔
وثالثا بفرض غلط اگر علامہ قاسم کا مقصود وہی ہوتاجو آپ مراد لے رہے ہیں تو یہ ان کے استا د محقق علی الاطلاق کے اس ارشاد کے مقابلہ میں مرجوع ہوتا جسے آپ نے بھی نقل کیا او رقبول کیا کہ انہوں نے قول صاحبین پر افتا کے باعث بارہا مشائخ کا رد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ: قول امام سے عدول نہ ہوگا سوا اس صورت کے کہ اس کی دلیل کمزور ہو ۔
قولہ عن العلامۃ ابن الشلبی الا اذا صرح احد من المشائخ بان الفتوی علی قول غیرہ ۱؎ ۔ قولہ علامہ شامی:
علامہ ابن شلبی سے نقل کرتے ہوئے مگر اس صورت میں جب کہ مشائخ میں سے کسی نے یہ صراحت کر دی ہو کہ فتوی امام کے سوا کسی اور کے قول پر ہے ،
(۱؎ شرح عقود رسم المفتی رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ /۲۷)
اقول: اولا فــــ۱سائرھم موافقون لھذا المفتی اومخالفون لہ اوساکتون فلم یرجحوا شیئا حتی فی التعلیل والجدل ولا بوضعہ متنا اوالاقتصار اوالتقدیم او غیر ذلک من وجوہ الاختیار
اقول اولا : (۱) دیگر مشائخ اس مفتی کے موافق ہیں(۲) یا اس کے مخالف ہیں (۳) یا ساکت ہیں کہ انہوں نے کسی قول کو ترجیح نہ دی، یہاں تک کہ کسی قول کی نہ علت پیش کی، نہ اس پر بحث کی ، نہ اسے اپنی تصنیف میں متن بنا یا ، نہ کسی ایک پر اقتصار کیا ، نہ وجوہ اختیار و تر جیح میں سے کوئی او رصورت اپنائی ،
فــــ ۱ : معروضۃ علی العلامۃ ش