قولہ فنقول ما یصدر من غیر الاھل لیس بافتاء حقیقۃ ۱؎
خیر رملی ، ہم یہ کہتے ہیں کہ غیر اہل اجتہاد سے جو حکم صادر ہوتا ہے وہ حقیقۃ افتا نہیں ۔
(۱؎ شرح عقود ر سم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ / ۲۹)
اقول : فــــ ۱فیہ کان الجواب عن التضاد لو ا لتفتم الیہ ۔
ۤآپ کی اسی عبارت میں اعتراض کا جواب بھی تھا ، اگر آپ نے التفا ت فرمایاہوتا ،
فــــ ۱ : تطفل علی الخیر وعلی ش
قولہ وانما ھو حکایۃ عن المجتھد ۲؎
خیر رملی ،وہ تو امام مجتہد سے صرف نقل و حکایت ہے ۔
(۲؎ شرح عقود ر سم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ / ۲۹)
اقول : فــــ ۲ لاوانظر الاولی
ایسا نہیں ملاحظہ ہو مقدمہ اول
فـــــ ۲ : تطفل علی الخیر وعلی ش
قولہ تجوز حکایۃ قول غیر الامام ۳؎
خیر رملی : غیر امام کے قول کی نقل وحکایت بھی جائز ہے۔
(۳؎ شرح عقود ر سم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ / ۲۹)
اقول : فــــ ۳ لاحجر فی الحکایۃولوقولا خارجا عن المذھب انماالکلام فی التقلید والمجتھد المطلق احق بہ ممن دونہ فلم لا تجیزون الافتاء باقوال الائمۃ الثلثۃ بل ومن سوی الاربعۃ رضی اللہ تعالٰی عنھم فان اجزتم ففیم التمذھب وتلک المشاجرات بل سقط المبحث رأساوانھدام النزاع بنفس النزاع کما سیأتی بیانہ ان شاء اللہ تعالی ۔
نقل وحکایت سے کوئی رکاوٹ نہیں اگر چہ مذہب سے باہر کسی کا قول ہو ، یہاں گفتگو تقلید سے متعلق ہے ، اور مجتہد مطلق اپنے سے فر و تر حضرات سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی تقلید کی جائے ، پھر آپ ائمہ ثلاثہ (مالک وشافعی واحمد رحمہم اللہ تعالی) بلکہ ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم کے علاوہ دیگر ائمہ کے اقوال پر فتوٰی دینے کو جائز کیوں نہیں کہتے ؟ اگر آپ اجازت دیتے ہیں تو مذہب امام کی پابندی کس بات میں ؟ اور یہ سارے اختلافات کیسے ؟ بلکہ صرف اس نزاع ہی سے سارا نزاع ختم اور وہ پوری بحث ہی سرے سے ساقط ہوگئی ، جیسا کہ اس کی وضاحت ان شاء اللہ تعالی آگے آئے گی۔
فــــــ ۳ : تطفل علی الخیر وعلی ش
قولہ فکیف یجب علینا الافتاء بقو ل الا مام ۔
خیررملی تو قول امام پر فتوی دینا ہم پر واجب کیسے ؟
اقول: لانا فــــ ۱ قلدناہ لامن سواہ وقد اعترف فـــ ۲ بہ السید الناقل فی عدۃ مواضع منھا صدر ردالمحتار قبیل رسم المفتی اناالتزمنا تقلید مذھبہ دون مذھب غیرہ ولذا نقول ان مذھبنا حنفی لایوسفی ونحوہ ۱؎ اھ ای الشیبا نی نسبۃ الی ابی یوسف او محمد رضی اللہ تعالی عنھم وقال فی شرح العقود الحنفی انما قلد ابا حنیفۃ ولذانسب الیہ دون غیرہ ۲؎ اھ
اس لئے کہ تقلید ہم نے انہی کی کی ہے دوسرے کی نہیں ، اور سید ناقل (علامہ شامی)نے تو متعد د مقامات پر خود اس کا اعتراف کیا ہے ، ان میں دو مقام یہ ہیں ، (۱) رسم المفتی سے ذرا پہلے شرو ع رد المحتار میں لکھتے ہیں ، ہم نے انہی کے مذہب کی تقلید کا التزام کیا ہے دو سرے کے مذہب کا نہیں ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب یعنی شیبانی بھی نہیں ، یہ امام ابو یوسف اور امام محمد رضی اللہ تعالی عنہما کی طر ف نسبت ہے ، حنفی ہے ، یوسفی وغیرہ نہیں ،
فـــــــ ۱ : علی الخیر وعلی ش
فـــــــ : علامہ شامی فرماتے ہیں ہم نے صرف تقلید امام اعظم اپنے اوپر لازم کی ہے، نہ کسی اور کی ولہذا ہمارا مذہب حنفی کہا جاتا ہے نہ یوسفی وغیرہ امام ابویوسف وغیرہ کی نسبت سے
(۲) شرح عقود میں لکھتے ہیں ، حنفی نے بس امام ابو حنیفہ کی تقلیدکی ہے ، اسی لئے وہ انہی کی طر ف منسوب ہوتا ہے کسی اور کی طر ف نہیں ،
(۱؎ رد المحتار مطلب صح عن الامام اذا صح الحدیث الی الخ دارا حیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۴۶)
( ۲؎ شرح عقود ر سم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ / ۲۴)
قولہ وانما نحکی فتواھم لاغیر۳؎۔
خیر رملی حالاں کہ ہم تو صرف فتوائے مشائخ کے ناقل ہیں کچھ اور نہیں ۔
(۳؎ شرح عقود ر سم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ / ۲۴ )
اقول: سبحن اللہ فـــ ۱ بل انما نقلد امامنا لاغیر ثم فـــ ۲ لیس افتاؤنا عندکم الاحکایۃ قول غیرنا فمن ذالذی حرم علینا حکایۃ قول امامنا و اوجب حکایۃ قول غیرہ من اھل مذھبنا فانکانوا مرجحین بالکسر فلیسوا مرجحین علی الامام بالفتح قول ش المشائخ اطلعوا علی دلیل الامام وعرفوا من این قال۔۱؎
سبحان اللہ! بلکہ ہم صرف امام اعظم کے مقلد ہیں کچھ اور نہیں ، پھر آپ کے نزدیک ہمارے افتا ء کی حقیقت کیا ہے ؟ صرف دو سروں کے اقوال کی نقل و حکایت ! تو وہ کو ن ہے جس نے ہم پر اپنے امام کے قول کی حکایت حرام کردی اور اہل مذہب میں سے دیگر حضرات کے قول کی حکایت واجب کردی ؟اگر وہ ترجیح دینے والے حضرات ہیں تو وہ امام پر تر جیح یافتہ نہیں ہوسکتے ۔ علامہ شامی ، مشائخ کو ''دلیل امام'' سے آگاہی ہوئی او رانہیں یہ معرفت حاصل ہوئی کہ قول امام کا ماخذ کیا ہے !
فـــ ۱ــــ : تطفل علی الخیر وعلی ش
فــــ ۲ : تطفل علی الخیر وعلی ش
(۱؎ شرح عقود ر سم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ / ۲۹ )
اقول : فــــ۱ من این عرفتم ھذا وبای دلیل اطلعتم علیہ انما المنقول فــــ۲ عن الامام المسائل دون الدلائل واجتھد الاصحاب فاستخرجوا لھا دلائل کل حسب مبلغ علمہ ومنتھی فہمہ ولم یدرکو اشاوہ ولا معشارہ ولر بما لم یلحقوا غبارہ فان قلتم فقولوا اطلعوا علی دلیل قول الامام ولا تقولوا علی دلیل الامام ورحم اللہ سیدی ط اذقال فی قضاء حواشی الدرقد یظھر قوۃ قولہ (ای لاھل النظر فی قول خلاف قول الامام) بحسب ادراکہ ویکون الواقع بخلافہ اوبحسب دلیل ویکون لصاحب المذھب دلیل اٰخر لم یطلع علیہ ۱؎ اھ
اقول : یہ آپ کو کہا ں سے معلوم ہو ا؟ او رکس دلیل سے آپ کو اس کی دریافت ہوئی؟ امام سے توصرف مسائل منقول ہیں دلائل منقول نہیں اصحاب نے اجتہاد کر کے ان مسائل کی دلیلوں کا استخراج کیا ، یہ بھی ہر ایک نے اپنے مبلغ علم اور منتہائے فہم کے اعتبار سے کیا اور کوئی بھی امام کی منزل کو نہ پاسکا بلکہ ان کے دسویں حصے کو بھی نہ پہنچا ، او ر زیادہ تر تو یہ ہے کہ یہ حضرات ان کی گر دپا کو بھی نہ پاسکے ۔ اگر کہنا ہے تو یوں کہئے کہ ہاں مشائخ کو '' قول امام کی دلیل'' سے آگاہی ملی یہ نہ کہئے کہ '' امام کی دلیل'' سے آگاہ ہوئے سیدی طحطاوی پر خدا کی رحمت ہو وہ حواشی درمختار کتاب القضا ء میں رقم طراز ہیں قول امام کے خلاف کسی قول میں اہل نظر کو کبھی قوت نظر آتی ہے ، یہ اس صاحب نظر کے علم وادراک کے لحاظ سے ہوتا ہے اور واقع میں اس کے بر خلاف ہوتا ہے ، یا کسی ایک دلیل کے لحاظ سے اسے ایسا معلوم ہوتاہے جبکہ صاحب مذہب کے پاس کوئی اوردلیل ہوتی ہے جس سے یہ آگا ہ نہیں ۔ اھ
فـــــ۱ : معروضۃ علی العلامۃ ش۔
فــــ ۲ : فائدہ : امام سے مسائل منقول ہیں دلائل مشائخ نے استنباط کیے ہیں ان کا ضعف اگرثابت بھی ہو تو قول امام کا ضعف لازم آنا درکنار دلیل امام کا بھی ضعف ثابت نہیں ہوتا ، ممکن کہ امام نے اور دلیل سے فرمایا ہو ۔
(۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب القضاء المکتبۃ العربیہ بیر وت ۳ /۱۷۶)