ثم اقول: وباللہ التوفیق ہماری تقریر سابق سےواضح ہوا کہ مائعات دو قسم ہیں، ایک وہ جن کے اجزا میں اصلاً تماسک نہیں جیسےنتھرا پانی،دوسری جن میں نوع تماسک ہے جیسےشہد۔ یہاں سےجس طرح اُن کی رقت وغلظت کا فرق پیدا ہوتا ہے کہ اوّل اپنے اتصال حسی کہ بہت باریک اجزاء پر تقسیم کرسکتا ہے بخلاف ثانی یوں ہی اُن کے سیلان میں بھی تفاوت آئے گا اول جب جگہ پائے گا بالکل منبسط ہوجائےگا اول اصلا نہ رہے گا کہ اجزاء جو عدمِ وسعت کے سبب زیروبالا متراکم تھے وسعت پاکر سب پھیل جائیں گے کہ ہر جز طالب مرکز ہے اگر اجزائے بالا بالاہی ر ہیں بہ نسبت اجزائے زیریں مرکز سےدُور ہوں گے جگہ پاکر بلا مانع دور رہنا مقتضائے طبیعت سےخروج ہے کہ عادۃً ممکن نہیں
(اس میں جاہل فلاسفہ کا اختلاف ہے،جو اس کو عقلا محال قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک فاعل موجب ہے اور ہمارے نزدیک مختار ہے تعالٰی اللہ مما یقول الظلمون علواً کبیرا وسبحان اللہ رب العرش العظیم۔ ت)بخلاف ثانی کہ اجزا میں ایک نوع تماسک کے سبب سب نہ پھیل سکیں گے ختم سیلان پر بھی مبدء سےمنتہی تک ایک اُبھرا ہوا جرم نظر آئےگا جیسا کہ مرئی ومشاہد ہے کہ اگر پختہ زمین یا تخت یا سینی یا لو ہے کی چادر پر شہد بہائیے بہاؤ رُکنے پر بھی یہاں سےوہاں تک اُس سطح سےاونچا شہد کا ایک دَل قائم رہے گا جسےخشک ہونے کے بعد چھیل سکتے ہیں بے اس کے کہ زمین کا کچھ حصّہ چھلے لیکن اگر پانی بہائیے اور پُورا بہہ جانے سےکوئی روک نہ ہو تو ختمِ سیلان کے وقت اُس سطح پر اول تا آخر ایک تری کے سوا پانی کا کوئی دَل نہ رہے گا ہمارے ائمہ اسی قسم اول کا نام رقیق اور ثانی کا کثیف رکھتے ہیں فقیرا سےروشن دلیل سےواضح کرے فاقول وباللہ التوفیق یہ دلیل ایک قیاس مرکب ہے تین مقدمات پر مشتمل:
مقدمہ اولٰی: ہمارے ائمہ(۱) نے باب نجاسات میں دو قسمیں فرمائی ہیں جرم دار و بے جرم، اول کی مثال لید وغیرہ سےدیتے ہیں اور دوم کی بول وخمر وغیرہما سےامام برہان الدین فرغانی ہدایہ میں فرماتے ہیں:
نجاسۃ لھاجرم کالروث ومالاجرم لہ کالخمر ۱؎۔
کوئی نجاست ایسی ہو کہ اُس کا جرم (جسم) ہو جیسےلید اور وہ جس کا جِرم نہ ہو جیسےشراب۔ (ت)
(۱؎ ہدایہ باب الانجاس وتطہیرہا مطبع عربیہ کراچی ۱/۵۶)
عنایہ میں ہے: النجاسۃ اما ان یکون لھا جرم کالروث اولا کالبول ۲؎۔
نجاست کا یا جرم ہوگا جیسےلید یا نہ ہو جیسےپیشاب۔ (ت)
(۲؎ العنایۃ مع فتح القدیر باب الانجاس وتطہیرہا مطبع نوریہ رضویہ سکھر ۱/۱۷۱)
امام ملک العلماءء بدائع میں فرماتے ہیں: الواقع فی البئر اماان یکون مستجسدا اوغیر مستجسد فان کان غیر مستجسد کالبول والدم والخمر ینزح ماء البئر الخ ۳؎۔
کنویں میں گر نے والی چیز یا تو جسم والی ہوگی یا غیر جسم والی، اگر غیر جسم والی ہو جیسےپیشاب، خون اور شراب، تو کنویں کا تمام پانی نکالا جائےگا۔ (ت)
(۳؎ بدائع الصنائع اما بیان المقدار الذی یصیربہ المحل نجسا مطبع ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۶)
مسئلہ کفش وموزہ(۲) میں متون وشروح وفتاوی عامہ کتب مذہب نے یہی ذی جرم وبے جرم کی تقسیم فرمائی اور ایسی مثالیں دی ہیں ازاں جملہ امام فقیہ النفس خانیہ میں فرماتے ہیں:
الخف اذا اصابتہ نجاسۃ ان کانت مستجسدۃ کالروث والمنی یطھر بالحک وان لم تکن مستجسدۃ کالخمر والبول لا یطھر الا بالغسل وعن ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی اذا القی علیھاترابا فمسحھایطھر لانھا تصیر فی معنی المستجسدۃ وبہ ناخذ ۴؎۔
موزے پر اگر نجاست لگ جائے تو اگر وہ جسد والی ہو جیسےلِید اور منی، تو وہ رگڑ دینے سےپاک ہوجائے گی اور اگر جسد والی نہ ہو جیسےشراب اور پیشاب، تو دھوئے بغیر پاک نہ ہوگی اور ابو یوسف سےایک روایت یہ ہے کہ اگر اس پر مٹی ڈال کر رگڑ دے تو پاک ہوجائے گی کیونکہ اب یہ معنیً جسد والی ہوجائے گی، اور ہم اسی کو لیتے ہیں۔ (ت)
(۴؎ فتاوٰی خانیہ المعروف قاضیخان فصل فی النجاسۃ التی تصیب الثوب والخف اوالبدن ۱/۱۳)
اب ہم دکھاتے ہیں کہ اُن کی نزدیک ادھر تو ذی جرم اور کثیف وثخین وغلیظ کہ مقابل رقیق ہیں اُدھر خود بے جِرم ورقیق ایک معنی رکھتے ہیں،اولاً کتابوں میں واحد سےاختلاف تعبیر،
(۱) امام طاہر بخاری نے خلاصہ میں اسی حکم اخیر خانیہ کو ان لفظوں سےادا فرمایا:
غیر المنی من النجاسات ان کانت رقیقۃ کالخمر والبول لایطھر الا بالماء وعن ابی یوسف اذا القی التراب علی الخف فمسحھا یطھر لانہ یصیر فی معنی المستجسدۃ ۱؎۔
نجاستوں میں منی کے علاوہ اگر رقیق ہو جیسےشراب اور پیشاب، تو صرف پانی سےہی پاک ہوگا، اور ابویوسف سےایک روایت ہے کہ جب موزے پر مٹی ڈالی گئی اور اس کو پونچھ دیا گیا تو وہ پاک ہوجائےگا کیونکہ وہ معنیً متجسد ہوگئی۔ (ت)
اور جوہرہ میں کثیف کو ثخین سےتعبیر کیا ہے او جواہر میں غلیظ سے، اور یہ زیادہ کیا کہ یہی صحیح مذہب ہے (ت)
(۴؎ الجوہرۃ النیرۃ، باب الانجاس، امدادیہ ملتان، ۱/۴۵)
امام ملک العلماء نے اسےیوں تعبیر فرمایا: قال الفقیہ ابو جعفر الھندوانی اذا اختلفت عبارات محمد فی ھذا فنوفق ونقول اراد بذکر العرض تقدیر المائع کالبول والخمر وبذکر الوزن تقدیر المستجسد ۱؎۔
فقیہ ابو جعفر ہندوانی نے فرمایا جب محمد کی عبارات مختلف ہوجائیں تو ہم تطبیق دیں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے عرض (چوڑائی) کے ذکر سےمائع کا اندازہ مراد لیا جیسے پیشاب اور شراب اور وزن سےجسم والی کی مقدار کا اراد کیا۔ (ت)