فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ) |
اقول: یہ رقت بالفعل (۲)ہے اور مائع کا اس قابل ہونا کہ چھاننی میں باریک اجزاء پر منقسم ہو سکے رقت بالقوہ یہی ان مسائل میں ملحوظ ومبحوث عنہ ہے۔ ثم اقول: جانب زیادت انتہائے رقت تو جواہر فردہ پر ہے کہ اُن سےزیادہ باریکی محال ہے باقی ایک مائع دوسرے کے اعتبار سےرقیق اضافی ہے گائے کا دودھ ہر حال میں بھینس کے دُودھ سےرقیق ہے مگر برسات کی گھاس چرے اور کھلی اور دانہ کھائے تو خود اُس کی پہلی صورت کا دودھ دوسری سےرقیق تر ہے یوں ہی یہ اختلاف بکری کے دودھ سےنہ جمی ہوئی راب تک متفاوت ہے اور جانب کمی اُس کی انتہا اختتام سیلان پر ہے۔ جب شی سائل نہ رہے گی یہاں سےظاہر ہوا کہ رقیق بالقوہ وسائل بجائے خود متساوی ہیں ہر رقیق بالقوہ سائل ہے اور ہر سائل رقیق بالقوہ عام ازیں کہ کپڑے سےنچڑ سکے جیسے پانی یا نہیں جیسےتیل، گھی، شیر، شہد وغیرہا۔ اب رہا یہ کہ جب رقت مبحوث عنہا اجزائے لاتتجزی سےاخیر حد مائع تک بتفاوت شدید پھیلی ہوئی ہے تو یہاں جس مقدار کی انتفا پر زوال طبع آب کہتے ہیں اُس کی تحدید کیا ہے۔ پانی کس حد کی رقت تک نامتغیر کہا جائے گا اور کیسا ہو کر زائل الطبع کہلائے گا یہی اصل مقصد بحث ہے اس کا انکشاف بعونہٖ تعالٰی بحث آئندہ کرتی ہے وباللّٰہ التوفیق٭ ولہ الحمد علی ھدایۃ الطریق٭ وصلی اللّٰہ تعالٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہٖ وصحبہٖ اولی التحقیق۔ بحث چہارم رقت معتبرہ مقام کی حدبست۔ اقول رأیت العبارات فیہ علی ثلثۃ مناھج۔میں کہتا ہوں میں نے اس سلسلہ میں تین قسم کی عبارات دیکھیں:
الاول: قال فی الغنیۃ لاتجوزبالمقیدکماء الزردج اذا کان ثخیناامااذاکان رقیقاعلی اصل سیلانہ فتجوز کماء المد ونحوہ ثم قال مادام رقیقا یسیل سریعا کسیلانہ عند عدم المخالطۃ فحکمہ حکم الماء المطلق ثم قال وضابطہ بقاء سرعۃ السیلان کماھو طبع الماء قبل المخالطۃ ثم قال (لوبل الخبز فی الماء ان بقیت رقتہ)کماکانت (جازوان صار ثخینا لا ۱؎اھ)
پہلی: غنیہ میں فرمایامقید سےجائز نہیں،جیسےزردج کاپانی جبکہ گاڑھا ہو، اور جب گاڑھا نہ ہو اور اصلی سیلان پر ہو توجائز ہے، جیسےسیلاب وغیرہ کا پانی۔ پھر فرمایا جب تک رقیق ہو جلدی بہتا ہو جیسےمخالطت کے نہ ہونے کے وقت بہتا ہے، تو اس کا حکم مطلق پانی جیسا ہے پھر فرمایا اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ تیزی سےسیلان کا باقی رہنا، جیسا کہ وہ پانی کی طبیعت ہے مخالطت سےپہلے، پھر فرمایا (اگر روٹی پانی میں تر ہوگئی تو اگر اس کی رقت باقی ہے)جیسےکہ پہلے تھی (تو جائز ہے اور اگر گاڑھا ہوگیا تو جائز نہیں) اھ
(۱؎ غنیۃ المستملی، فصل فی بیان احکام المیاہ، سہیل اکیڈمی لاہور، ص۸۸۔۹۱)
وفی العنایۃ والبنایۃ فی جوازالوضوء بماء تقع فیہ الاوراق شرطہ ان یکون باقیا علٰی رقتہ اما اذا صار ثخینا فلا ۱؎ اھ
اور عنایہ اور بنایہ میں ہے کہ جس پانی میں پتّے گر گئے ہوں اُس سےوضو کے جواز میں شرط یہ ہے کہ اُس کی رقت باقی ہو اور جب گاڑھا ہوجائے تو وضو جائز نہیں اھ
(۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۳) (و البنایۃ شرح ہدایۃ باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ مطبع امدادیہ مکہ مکرمہ ۱/۱۸۹)
فالضمیر فی رقتہ ربمایشیرالی مامال الیہ فی الغنیۃ وقد یعارضہ المقابلۃ بصیرورتہ ثخینالکن قالا بعدہ فی ماء الزعفران وغیرہ یعتبر فیہ الغلبۃ بالاجزاء فان کانت اجزاء الماء غالبۃ ویعلم ذلک ببقائہ علی رقتہ جازالوضوء وانکانت اجزاء المخالط غالبۃ بان صار ثخینا زالت عنہ رقتہ الاصلیۃ لم یجز اھ۔
تو رقتہ کی ضمیر بسا اوقات اس کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کی طرف وہ غنیہ میں مائل ہوئے، اور اس کا معارضہ ''بصیر ورتہ ثخینا'' کے تقابل سےہوسکتا ہے، لیکن اُن دونوں نے اس کے بعد فرمایا زعفران وغیرہ کے پانی میں کہ اس میں اجزاء کے غلبہ کا اعتبار ہوگا، تو اگر پانی کے اجزاء غالب ہوں، اور اس کا علم اس کی رقت سےہوگا، تو اس سےوضو جائز ہے اور اگر مخالط کے اجزاء غالب ہوں بایں طور کہ وہ گاڑھا ہو اس سےاس کی اصلی رقت زائل ہوگئی تو جائز نہیں اھ (ت)
الثانی قال فی العنایۃ ایضا فی المطبوخ مع الاشنان ونحوہ یجوز التوضی بہ الا اذاصار غلیظا بحیث لایمکن تسییلہ علی العضو ۲؎ اھ
دوسرے یہ کہ عنایہ میں بھی ہے کہ جس پانی میں اُشنان وغیرہ پکائی جائے تو اس سےوضو جائز ہے سوائے اس کے کہ وہ اتنا گاڑھا ہوجائے کہ اس کو اعضاء پر بہایا نہ جاسکے اھ
ولفظ الحلیۃ عن البدائع والتحفۃ والمحیط الرضوی والخانیۃ وغیرھا اذاصار غلیظا بحیث لایجری علی العضو ۳؎ اھ
اور حلیہ میں بدائع، تحفہ، محیط رضوی اور خانیہ وغیرہ سےہے کہ جب وہ اتنا گاڑھا ہوجائے کہ اعضاء پر نہ بہہ سکے اھ
(۲؎ العنایۃ مع الفتح باب الماء الذی یجوزبہ الوضو الخ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۶۴) (۳؎ حلیہ)