Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
17 - 146
مسئلہ ۳۴: ۱۰ رمضان المبارک ۱۳۱۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رومال ریشمیں مرد کے واسطے استعمال کرنا یعنی ہاتھ میں یا کندھے پر رکھنا جائز ہے یا ناجائز یا مکروہ؟ اگر مکروہ ہے تو مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی ۔ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر وثواب پاؤ۔ت )
الجواب

ہاتھ میں لینا جیب میں رکھنا، اس سے منہ پوچھنا یہ سب جائز (اگر بہ نیت تکبر نہ ہو کہ اس نیت سے تو کوئی روا نہیں) اور کندھے پر ڈلنا مکروہ تحریمی۔ اصل یہ ہے کہ ہمارے امام مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ریشم کا پہننا ہی مرد کو ممنوع ہے نہ کہ باقی طرق استعمال، اور رومال حسب معمول کندھے پرڈالنا ایک نوع لبس ہے۔ ہاتھ یا جیب میں رکھنا پہننا نہیں۔
ردالمحتارمیں ہے :
التعلیق یشبہ اللبس فحرم لذٰلک لما علم ان الشبہۃ فی باب المحرمات ملحقۃ بالیقین رملی، والظاھر ان المراد بالکیس المعلق نحو کیس التمائم المسماۃ بالحمائلی فانہ یعلق بالعنق بخلاف کیس الدارھم اذا کان یضعہ فی جیبہ مثلا بدون تعلیق وفی الدراالمنتقی ولا تکرہ الصلٰوۃ علی سجادۃ فی الابریسم لان الحرام ھو اللبس اما الانتفاع بسائر الوجوہ فلیس بحرام کما فی صلٰوۃ الجواہر واقرہ القہستانی وغیرہ ۱؎۔
لٹکانا حرام شیئ کا پہننے کے مشابہ ہے اس لئے کہ یہ معلوم ہے کہ محرمات کے باب میں شبہہ یقین کے ساتھ لاحق ہوتاہے۔ رملی اور ظاہر یہ ہے کہ تھیلا سے مراد لٹکایا ہوا ہے جیسے تعویزات  کا تھیلا کہ جس کو حمائلی کہاجاتاہے کیونکہ اس گلے میں لٹکایا جاتاہے بخلاف اس کے کہ دراہم کا تھیلا (بٹوہ) جبکہ اسے بغیر لٹکائے جیب میں رکھا جاتاہے۔ در منتقی میں ہے کہ ریشمی مصلی (جائے نماز) پر نماز ادا کرنا مکروہ نہیں۔ اس لئے کہ ریشم کا پہننا حرام ہے۔ لیکن پہننے کے سوا اور طریقوں سے فائدہ اٹھانا حرام نہیں جیسا کہ صلٰوۃ الجواہر میں مذکو رہے اور قہستانی وغیرہ نے اس کو برقرار کھا ہے۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتا ب الحظرولاباحۃ فصل فی البیع     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۲۵)
اسی میں ہے :
وفی القنیۃ دلال یلقی ثوب الدیباج علی منکبیہ یجوز اذا لم یدخل یدیہ فی الکمین وقال عین الائمۃ الکرابیسی فیہ کلام بین المشائخ اھ ووجہ الاول ان القاء الثوب علی الکتفین نما قصد بہ الحمل دون الاستعمال فلم یشبہ اللبس المقصود للانتفاع تأمل ۲؎۔
قنیہ میں ہے کہ دلال نے ریشمی کپڑا بیچنے کے لئے کندھوں پر اٹھا تویہ جائز ہے جبکہ دونو ں ہاتھ آستینوں میں نہ ڈالے۔ عین الائمۃ کرابیسی نے فرمایا اس میں مشائخ کرام کی گفتگو ہے (یعنی اعتراض اور اختلاف ہے) اھ ۔ پہلے قول کی وجہ یہ ہے کہ کندھوں پر لٹکانے سے اٹھانا مقصود ہوتاہے۔ نہ کہ پہننا لہذا یہ پہننے کے مشابہ نہیں جو انتفاع سے مقصود ہے۔ غور کیجئے۔ (ت)
 (۲؎ردالمحتار     کتا ب الحظرولاباحۃ فصل فی البیع     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۲۶)
اسی میں ہے :
الحرام ھو اللبس دون الانتفاع اقول ومفادہ جواز اتخاز خرقۃ الوضوء منہ بلا تکبر اذ لیس یلبس لاحقیقۃ ولا حکما بخلاف اللحاف والتکۃ وعصابۃ المفتصد تامل ۱؎ اھ ھذا ماظھرلی واﷲ تعالٰی اعلم۔
حرام صرف پہنناہے صرف فائدہ اٹھانا حرام نہیں میں کہتاہوں اس کا مفاد (حاصل)یہ ہے کہ ریشمی رومال سے اعضائے وضو پونچھنا اگر بلا تکبرہو توجائز ہے اس لئے کہ یہ نہ  حقیقتا پہننا ہے نہ حکما بخلاف لحاف، تکمہ اور فصد کی پٹی کے۔ غورو فکر کیجئے اھ یہ وہ ہے جو میرے لئے ظاہر ہوا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ     فصل فی البیع   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۲۷)
مسلہ ۳۵ : از ریاست کوچ بہار ملک بنگال مدرسہ محسنیہ راجشاہیہ مرسلہ مولوی خلیل اللہ صاحب مدرس اول مدرسہ مذکورہ ۲۸ جمادی الاولٰی ۱۳۱۹ھ

مخدوم ومکرم من زاد مجدکم بعد از السلام علیکم ملتمس ہوں کہ مرسلا گرامی بنا بر طلب نمونہ پارچہ رینڈی پہنچ کر باعث سرفرازی ہوا حسب فرمائش عالی پارچہ مذکور کا کسی قدر نمونہ مرسل ہے میرا اپنا مسلک یہ ہے کہ پارچہ مذکورہ شرعا مباح الاستعمال ہے اور میں نے یہ مسلک بہت تحقیق اور بڑی جستجو اور قال اقول کے بعد اختیار کیا ہے۔ حضرت مخدومنا وشیخنا ابوالحسنات مولانا محمد عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ تعالٰی کے حضورمیں ایک بزرک کے ساتھ جواباحت استعمال کے قائل تھے میرا زبانی مباحثہ ہوا میں مدعی حرمت کاتھا آخر محاکمہ مولانائے مغفور سے انھیں کا مدعا صحیح ثابت ہوا یہاں ایک بنگالی مولوی صاحب نے آج کل اس کے حرام ہونے کا بہت بڑا زور وشور سے ایک فتوٰی لکھا ہے بلکہ زہر اگلا ہے کہ مباح کہنے والے کو یکبارگی کافر بنادیا ہے نعوذ باللہ!
مخفی باد کہ وجہ حرمت جامہ رینڈی درایۃ وروایۃ ہیچک وجہ برنمی آرد وآں ازقسم حریر منصوص الحرمۃ فی القرآن والحدیث نیست چہ عندالتعمیق والتفتیش بوضوع می پیوندد کہ ماہیت حریر و ثوب مسطور الصدریکے نبود بلکہ فرقے درمیان می باشد غذائے کرم آبریشم برگ تودست کما قال النظام الگنجوی ؎

کریمے کہ از تود واز برگ تود

زحلوا و زاربریشم آورد سود

تو وہماں تو ت است اہل راجشاہی کہ منبت ومخزن ابریشم ست زراعت توت مے کنند و کرم ابریشم رامی خورانند ومی پرور ندچنانچہ ایں ہمہ بچشم سردیدہ ام ومی بینم وغزائے کرم جامہ مذکور ورق بیدانجیرست کہ ہندی آں را رینڈی ست وعلاوہ برآں وجہ حرمت حریر تفاخر وتنعم وزینت و نفاست وتشبہ بالا کا سرہ والجبابرہ واخوت آن ست وایں ہمہ در حریر یافتہ شود نہ در رینڈی و علی فرض المحال اگر آں جامہ از قسم ابریشم ہم باشد پس وجہ عدم حرمت آں ایں خواہدبود کہ مراد از حریر منصوص حریر جید باشد نہ ردی بحکم ضابطہ اصو ل المطلق ینصرف نظرا الی فردہ الکامل ھذا ماخطر ببالی الکسیر واﷲ تعالٰی اعلم بحقائق الاشیاء نمقہ العبد المشتاق الی ربہ الجلیل ابواسمعیل محمد خلیل اﷲ المدرس الاول فی المدرسۃ المحسنیۃ الراجشاھیۃ تجاوز اﷲ عن ذنوبہ۔
واضح رہے کہ رینڈی کپڑے کی حرمت کی کوئی وجہ عقلا نقلا دکھائی نہیں دیتی اور وہ ریشم کی اس قسم سے نہیں جس کی حرمت قرآن وحدیث میں صراحۃ موجود ہے کیونکہ تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ریشم اور مذکورہ کپڑے میں کوئی مماثلت نہیں بلکہ دونوں کے درمیان فرق ہے۔ اس لئے کہ ریشم کے کیڑے کی خوراک توت کے پتے ہیں۔ جیسا کہ مولٰنا نظامی گنجوی نے فرمایا :؂

''وہ ایسا سخی ہے کہ توت اور اس کے پتوں سے اس نے حلوے اور ریشم کا فائدہ عنایت کیا''

''تود'' وہی درخت توت ہے جو رتیشم کی پیدا وار کا ذریعہ ہے چنانچہ راجشاہی کے باشندے توت کی باقاعدہ کا شت کرتے ہیں اور ریشم پیدا کرنے والے کیڑوں کو بطورخوراک کھلاتے ہیں اور ان کیڑوں کی پرورش کرتے ہیں یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دیکھ رہاں ہوں اور مذکورہ کپڑے کیڑے کی خوارک بیدانجیر ہے کہ ہندی میں اس کو رینڈی کہتے ہیں اس کے علاوہ ریشم کی وجہ حرمت، تفاخر، تنعم، زیب وزینت نفاست اور اکاسرہ جبابرہ یعنی مکتبر اور سرکش لوگوں سے مشابہت ہے (کہ وہ نرم و نازک مالئل ونفیس ریشم کو برائے تکبرہ غرور اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتے ہیں) اوریہ چیزیں توت کے اصل ریشے میں پائی جایت ہے نہ کہ رینڈی میں لیکن اگر بفرض محال وہ کپڑااز قسم ریشم ہی ہو تو پھر اس کے حرام نہ ہونے کی وجہ یہ ہوگی کہ ریشم جس کی حرمت منصوص ہےاس سے اعلی وعمدہ ریشم مراد ہے کہ ردی اور گھٹیا۔ اور اہل ۤصول کے قاعدہ کے مطابق جب مطلق بولا جائے تو اس سے اس کا ''فرد کامل'' مراد ہوگا۔ پس یہ عدم حرمت کی چند وجوہات میرے شکستہ دل میں کھٹکتی تھیں جو بیان ہوئیں اللہ تعالٰی حقائق اشیاء کو سب سے بہتر جاننے والا ہے۔ اس کو رب جلیل کا شوق رکھنے والے بندے نے لکھا جو ابواسمعیل محمد خلیل اللہ مدرس اول مدرسہ محسنیہ راجشاہیہ میں ہے اللہ تعالٰی اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔ (ت)
Flag Counter