پر آنسوؤں کی لڑی بن گئی، دل کا میل دُھلنے لگا، نیک بننے کی خواہش دل میں جگہ پانے لگی۔ ذکر و دعا اور صلوٰۃ وسلام کے بعد میری ملاقات جب اپنے محسن سے ہوئی جن کی انفرادی کو شش نے مجھے گناہوں کی دلدل سے نکال کر سنّتوں بھرے اجتماع کی مُشکبار فضاؤں میں لا کھڑا کیا تھا، تو وہ مجھے اجتماع میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور شرکت پر بڑی حوصلہ افزائی کی نیز آیندہ باقاعدگی سے اجتماع میں شرکت کرنے کا ذہن دیا۔ اب میری سوچوں کے دھارے کسی اور ہی رُخ پر بہنے لگے ، پہلے میں جرائم کے نئے نئے منصوبے سوچا کرتا تھا اب بڑی بے چینی سے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کا انتظار کرتا، جونہی جمعرات کا دن آتا میں ہر طرح کی مصروفیت چھوڑ کر اجتماع میں حاضر ہو جاتا۔ آہستہ آہستہ میری عادتیں سنورنے لگیں ، قلبی سکون بھی ملنے لگا۔ ۱۴۱۸ھ بمطابق 1997ء میں مجھے مدینۃ الاولیاء (ملتان) میں ہونے والے بین الاقوامی سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی سعادت نصیب ہو گئی، جہاں عاشقانِ رسول کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر پُرکیف سماں پیش کر رہا تھا۔ دورانِ اجتماع شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے سنّتوں بھرے بیان نے’’ گرم لوہے پر ہتھوڑے‘‘ کا کام کیا اور میں نے صدقِ دل سے فلمیں ڈرامے دیکھنے ،گانے باجے سننے، داڑھی منڈانے، رشوت لینے اور دیگر