کے بارے میں جب ایک جگہ’’ آپ‘‘ یا ’’تم‘‘ لکھا تو اس مضمون میں اب ہر جگہ آپ یا تم سے ہی خطاب کیا جائے ،(افسوس کہ یہ عیب اردو کی بہت سی کتب میں بکثر ت دیکھا جاتا ہے کہ جس کو ابھی ’’تم‘‘سے مخاطب کیا تو ایک آدھ سطر کے بعد اُسی فرد کو ’’ تُو‘‘ لکھ دیا ! ) غیر ضَروری الفاظ کی بھرمار نہ ہوکم سے کم الفاظ میں جامع و مانِع انداز میں لکھئے کہ’’رَدُّالمحتار‘‘ میں ہے:خَیرُ الْکَلامِ ماقَلَّ وَدَلَّ یعنی اچھا کلام وہ جو قلیل و پُر دلیل ہو۔(رد المحتار علی در مختار،ج۱۱،ص۵۲۴)
{75}فتویٰ نویسی میں جہاں تک ہوسکے فیضانِ سنّت اورمکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسائل ۱؎ کے اُسلوبِ تحریرسے کچھ نہ کچھ مدد لے لیجئے ۔اپنے کتب و رسائل کے مِعیاری مضمون نگار ی سے عاری ہونے کا مُعترِف ہوں تا ہم اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ تَلَفُّظ کی دُرُستی اور الفاظ کی شُستگی میں تھوڑی بَہُت مدد مل ہی جائے گی۔
{76}الفاظ جس قَدَر بدل بدل کر لکھیں گے عبارت میں اُسی قَدَر حُسن پیدا ہوگا۔کوشِش کیجئے کہ جس فِقرے بلکہ پَیرے میں ایک بار جو لفظ آ چکا ہو بِلاضَرورت دوبارہ نہ آئے۔ہاں بعض اوقات ایک لفظ کی تکرار عبارت یاا شعار میں حُسن بھی پیدا کرتی ہے لیکن ہر چیز اپنے موقع محل کے اعتبار سے حکم رکھتی ہے نُمونَۃً میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّت کا ایک شعر ملاحَظہ ہو اِس کے دوسرے مصرعے میں لفظ
مـــــــــــدینہ
۱؎ :یعنی امیرِ اہلسنّت دامت بَرَکاتُہُمُ العالیہ کے رسائل۔