مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا یہ قول بیان فرمایا:’’ عالم جب لااَدرِی(یعنی میں نہیں جانتا) کہنا بھول جاتا ہے، تو ٹھوکریں کھانے لگتا ہے۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا عقبہ بن مسلم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما کہتے ہیں : میں حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی صحبت میں چونتیس مہینے رہا اور برابر دیکھتا رہا کہ اکثر مسئلوں پر لااَدرِی(یعنی میں نہیں جانتا) کہہ دیا کرتے اورمیر ی طرف مُڑ کر فرماتے : تم جانتے بھی ہویہ لوگ کیاچاہتے ہیں ؟ کہ ہماری پیٹھ کو جہنَّم تک اپنے لئے پُل بنا لیں !حضرتِ سیِّدُنا ابو الدَّرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایاکرتے تھے:لاعلمی کی صورت میں آدمی کا لااَدرِی(یعنی میں نہیں جانتا) کہنا آدھا علم ہے۔(جامع بیان العلم وفضلہ ، ص ۳۱۵، ۳۱۶ ) حجۃ الاسلام حضرتِ سیِّدُناامام محمد بن محمد غزالی علیہ رحمۃ الوالی فرماتے ہیں : جو شخص اپنے علم سے غیرِ خدا کی رِضا چاہتا ہے اس کا نفس اُسے اِس بات کا اقرار نہیں کرنے دیتا کہ کہے:لااَدرِییعنی’’ میں نہیں جانتا۔‘‘(احیاء علوم الدین، ج ا، ص۴۷ )صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہحضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعلیہ رحمۃ اللہ القوی سے بَٹ کھانے کے بارے میں سُوال کیا گیا توتحریراً ارشاد فرمایا:’’بٹ کی نسبت اس وقت فقیر کو کوئی روایت دستیاب نہ ہوئی۔‘‘ـ(فتاوی امجدیہ، ج۳،ص۲۹۹)لہٰذا یقینی جواب معلوم نہ ہونے کی صورت میں آئیں بائیں شائیں اور ’’ چونکہ چُنانچِہ‘‘ کرنے کے بجائے صاف صاف