فتووں پر زیادہ جُرأت کرتا ہے وہ آگ پر زیادہ جُرأت(جُر۔اَت) کرتا ہے ۔ (کنزُ العُمّال ج ۱۰ ص۸۰ حدیث ۲۸۹۵۷ ،و فتاوٰی رضویہ ج۱۱ ص ۴۹۰)ایک اور حدیثِ پاک میں ہے،سرکارِ مدینہ ، قرارِ قلب و سینہصلّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ باقرینہ ہے : ’’جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘(اَ لْجامِعُ الصَّغِیر ص ۵۱۷ حدیث۸۴۹۱ ) میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت ،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاویٰ رضویہ جلد 23 صَفْحَہ 711تا712 پر فرماتے ہیں :جُھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت شدید کبیرہ (گناہ)ہے اگرقَصداً ہے تو شریعت پر افتِراء(یعنی جھوٹ باندھنا) ہے اور شریعت پرافتِراء اللہ عَزَّوَجَلَّ پرافتِراء ہے ۔‘‘(فتاوی رضویہ ج۲۳ ص۷۱۱)ہمارے اسلاف تو مطلقاً مسئلہ بتانے ہی سے خوف کھاتے تھے چُنانچِہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے بیٹے حضرتِ سیِّدُنا سالم بن عبداللہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک شخص نے مسئلہ (مَسْ۔ئَ۔لہ) پوچھا، جواب دیا:’’ اس بارے میں مجھے کوئی روایت نہیں پہنچی۔‘‘ ایک شخص نے عرض کی: میرے لئے تو آپ کی رائے بھی بَہُت ہے۔ فرمایا: ’’اپنی رائے بتادوں اور تم چلے جاؤپھر شاید وہ رائے بدل جائے، تو میں تمہیں کہاں ڈھونڈتا پھروں گا۔‘‘ (جامع بیان العلم وفضلہ ، ص ۲۸۷)
امام مالِک نے 48 سُوالات میں سے صِرف 16کے جوابات د یئے!
{73} جب تک 100فیصدی اطمینان نہ ہوجائے اُس وقت تک فتویٰ مت دیجئے، اٹکل پَچُّو سے ہرگز مسئلہ نہ بتایئے بے شک کہدیجئے بلکہ لکھ کر دے دیجئے: