کے لیے حضرت سیِّدُنا حسن بن زِیاد علیہ رَحْمَۃُ ربِّ العِباد کی طرف رُجوع کرے ۔ حضرت سیِّدُنا حسن بن زِیاد علیہ رَحْمَۃُ ربِّ العِباد نے کئی روز تک فتویٰ نہیں دیا یہاں تک کہ وہ(مطلوبہ) شخص آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمتِ بابَرَکت میں حاضِر ہوا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اُس کو دُرُست مسئلہ بتایا۔( اَدبُ المُفتِی والمُسْتَفْتِی لابْنِ الصَّلاح ،ص ۴۶ مُلَخَّصاً ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔ٰامین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گلِ گلزار ہوتا ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
آگ پر زیادہ جُرأَ ت کرتا ہے!
{72} اگر کسی مسئلے کا جواب نہ آتا ہو تو’’لَااَعْلَمُ یعنی میں نہیں جانتا‘‘کہنے میں شرم محسوس نہ کیجئے ۔افسوس! آج کل تو شاید بعضو ں کو لَا اَعلَمُ (یعنی میں نہیں جانتا)کہنا ہی نہیں آتا !ہر مسئلے کا جواب دینا
گویاان کیلئے واجِب ہے اور ذِہن یہ بن گیا ہے کہ نہیں بتائیں گے تو بے عزّتی ہو جائے گی، حالانکہ ایسا نہیں ۔ حقیقت میں ذلیل وخوار بلکہ عذابِ نار کا حقدار تو وہ ہو گا جو اِس دارِناپائدارمیں محض بھرم رکھنے کیلئے غلط مسئلے (مَس۔ئَ۔لے)بتانے سے گُرَیز نہیں کر تا ہوگا اور بروزِ قِیامت اپنی اِس بے باکی کی سزا سُنایا جائیگا۔رسولُ اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم فرماتے ہیں : تم میں سے جو