ہیں :منصبِ اِفتا ملنے کے وقت فقیر کی عمر13 بر س دس مہینہ چاردن کی تھی، میں بھی ایک طبیبِ حاذِق کے مطب میں سات برس بیٹھا ، مجھے وہ وقت، وہ دن، وہ جگہ ، وہ مسائل اور جہاں سے وہ آئے تھے اچھی طرح یاد ہیں ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ،ص۶۳،۱۴۱)
فتویٰ کب دیں ؟
{64} جب تک آپ کے استاذ مفتی صاحب جن کی زیرِنگرانی آپ فتویٰ نویسی کی مشق کرتے ہیں آپ کو فتویٰ دینے کی اجازت نہ دے دیں اُس وقت تک مفتی بننے کا شوق نہ چُرائیے۔یاد رہے! بطورِ مشق فتویٰ لکھنا اور چیز ہے ،بطورِ مفتی فتویٰ لکھنا اور چیز ! نیزاستاذ صاحب کو بھی چاہئے کہ جب تک خوب مطمئن نہ ہو جائیں ، مُرُوَّت یا شفقت یا کسی اور وجہ سے فتویٰ جاری کرنے کی اجازت نہ دیں۔
جب اعلیٰ حضرت کو فتویٰ نویسی کی اجازت ملی
میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّتنے اپنے والدِ ماجِد رئیس المتکلمین حضرت علامہ مولانا مفتی نقی علی خان علیہ رحمۃ الرحمن کے حکم پر ۱۲۸۶ ھ میں فتوے لکھنا شروع کئے اور والد صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اپنے فتاوٰی پر اصلاح لیاکرتے تھے ، 7سال کے بعد انہوں نے اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّتکو اجازت دے دی کہ اب فتاوٰی مجھے دکھائے بغیر سائلوں کو روانہ کردیا کرو مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے دنیا سے تشریف لے جانے تک اپنے فتاوٰی چیک کرواتے رہے ، اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّتخود لکھتے ہیں :’’سات برس کے بعد مجھے اِذن فرمادیا کہ