خود بخود اپنے مَحمَل پر ڈھلتی ہے اور تمام تَخَالُف کی بدلیاں چَھنٹ کر اصل مراد کی صاف شفاف چاندنی نکلتی ہے ،اُس وقت کھل جاتا ہے کہ اَقوال سخت مختلف نظرآتے تھے حقیقۃً سب ایک ہی بات فرماتے تھے، اَلْحَمْدُلِلّٰہفتاوائے فقیر میں اِس کی بکثرت نظیریں ملیں گی ولِلّٰہِ الْحَمْدُ تَحْدِیْثًا بِنِعْمَۃِ اللہِ وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللہِ، وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مَنْ اَمَدَّنَا بِعِلْمِہِ وَاَیَّدَنَا بِنِعَمِہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ اٰمِیْن وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔(فتاوٰی رضویہ ج۱۶ص۳۷۶)
{63}فتویٰ دینا بہت نازک کام ہے ۔مفتی بننے کے لئے ماہر مفتی کی صحبت بھی ضروری ہے ۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّت فرماتے ہیں :’’علمُ الفتوٰی پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مُدّتہا (یعنی طویل مدّت تک )کسی طبیبِ حاذق کا مطب نہ کیا ہو (یعنی ماہر مفتی کی صحبت میں رہ کر فتوے نہ لکھے ہوں )(فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص۶۸۳)
اعلیٰ حضرتعلیہ رحمۃُ ربِّ العزّت نے فتویٰ نویسی کہاں سے سیکھی؟
میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّت نے اپنے والد ماجِد رئیس المتکلمین حضرت علامہ مولانا مفتی نقی علی خان علیہ رحمۃ الرحمن کے زیرِ سایہ فتویٰ نویسی کی مشق کی ۔ والد صاحب ایسے ماہِر مفتی تھے کہ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّتفرماتے ہیں : دوحضرات ایسے ہیں جن کے فتاوٰی پر آنکھیں بند کر کے عمل کیا جاسکتا ہے :ایک حضرت خاتم المحققین سیدنا الوالدقدس سرہ الماجد دوسرے مولانا عبدالقادر بدایونی علیہ رحمۃاللہ الغنی۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۹ ص۵۹۴ملخصًا)اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّتخود فرماتے