Brailvi Books

قسط 5: علم وحکمت کے 125مَدَنی پھول تذکرہ امیرِ اہلسنّت
41 - 100
اب دارالافتاء، دارُالفقہ نہیں  رہا بلکہ دینی معلوماتِ عامہ کا محکمہ ہوگیا، کسی بھی دارالافتاء میں  جا کر دیکھئے مسائلِ فقہ و کلام کے علاوہ تصوُّف، تاریخ، جغرافیہ ، حتی کہ منطقی سوالات بھی آتے ہیں  اور اب تو یہ رواج عام پڑ گیا ہے کہ کسی مقرِّر نے تقریر میں  کوئی حدیث پڑھی کوئی واقعہ بیان کیا۔مقرر صاحب تو پورے اِعزاز و اکرام کے ساتھ رخصت ہوگئے، ان سے کسی صاحب نے نہ سند مانگی نہ حوالہ مگر دارالافتاء میں  سوال پہنچ گیا کہ فلاں  مقرر نے یہ حدیث پڑھی تھی یہ واقعہ بیان کیا تھا، کس کتاب میں  ہے؟باب ، صفحہ ، مطبع کے ساتھ حوالہ دیجئے، یہ کتنا مشکل کام ہے !اہلِ علم ہی جانتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ ’’فتویٰ نویسی‘‘ جیسا مشکل اور ذمہ داری کا کام کوئی بھی نہیں، مقرر خاص خاص موضوع پر تیاری کرکے تقریر تیار کرلیتا ہے، مدرس اپنے ذمہ کی کتابوں  کا وہ حصہ جو اسے دوسرے دن پڑھانا ہے مطالعہ کرکے اپنی تیاری کرلیتا ہے، مصنف اپنے پسندیدہ موضوع پر اس کے متعلق مواد فراہم کرکے لکھ لیتا ہے، لیکن دارالافتاء سے سوال کرنے والا کسی موضوع کا پابند نہیں ، نہ کسی فن کا پابند ہے نہ کسی کتاب کا پابند ہے، اس کو تو جو ضرورت ہوئی اس کے مطابق سوال کرتا ہے، خواہ وہ عقائد سے متعلق ہو یا فقہ کے یا تفسیر کے یا حدیث کے یا تاریخ کے یا جغرافیہ کے!ان سب تفصیلات سے ظاہر ہوگیا کہ فتویٰ نویسی کتنا اہم اور مشکل کام ہے ۔‘‘ (تقدیم حبیب الفتاوٰی ص۴۵ )
{61}مفتی کو کتنے عُلُوم میں  مہارت ہونی چاہئے،اِس ضمن میں  میرے آقااعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّت لکھتے ہیں :’’حدیث و تفسیر واُصول وادب وقدرِ حاجت