Brailvi Books

قسط 5: علم وحکمت کے 125مَدَنی پھول تذکرہ امیرِ اہلسنّت
33 - 100
{45}	فتوے کے مضمون کوبِلا ضَرورت اتنی بھی طوالت مت دیجئے کہ لوگ پڑھنے ہی سے کترائیں  اورعلمِ دین اور حکمِ شریعت سیکھنے سے محروم رہ جائیں۔
قصداً مسئلہ چُھپانے کا عذاب
{46}	مسئلے کا جواب دیتے وقت ذِہن یہ نہ بنائیے کہ مجھے اپنی علمیّت کا سکّہ جمانا ہے، جواب جاننے کی صورت میں  نیّت یہ ہو کہ کِتْمانِ علم (یعنی علم چُھپانے )کے گناہ سے خود کو بچانا ہے۔حدیثِ پاک میں  ہے:جس سے علم کی بات پوچھی گئی اور اس نے نہیں  بتائی اس کے منہ میں  قِیامت کے دن آگ کی لگام لگادی جائیگی۔(سنن الترمذی ج۱ ص۲۹۵حدیث۲۶۵۸) مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اگر کسی عالم سے دینی ضروری مسئلہ پوچھا جائے اور وہ بلاوجہ نہ بتائے تو قیامت میں  وہ جانوروں  سے بدتر ہوگا کہ جانور کے منہ میں  چمڑے کی لگام ہوتی ہے اور اُس کے منہ میں  آگ کی لگام ہوگی ، خیال رہے کہ یہاں  علم سے مُراد حرام حلال، فرائض واجبات وغیرہ تبلیغی مسائل ہیں  جن کا چھپانا جُرم ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۱ص۲۰۴) مُحَقِّق عَلَی الْاِطلاق، خاتِمُ المُحَدِّثین، حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی علیہ ر حمۃ  اللہِ  القوی فرماتے ہیں : یعنی جس علم کا جاننا ضروری ہو اور علماء میں  سے کوئی اور اسے بیان کرنے والا بھی نہ ہو اور بیان کرنے سے کوئی صحیح عذر بھی مانع نہ ہو بلکہ بخل اور علمِ دین سے لاپرواہی کی بنا پر چھپائے تو مذکورہ سزا کا مُستَوجِب( یعنی حقدار) ہوگا ۔ (اشعۃ اللمعات