{43}مَرجوح قول پر مفتی کافتویٰ دینا جائز نہیں ، قاضی بھی اس کے مطابِق فیصلہ نہیں کر سکتا۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلامفرماتے ہیں :’’اَلْحُکْمُ وَالْفُتْیَا بِالْقَوْلِ الْمَرْجُوْحِ جَھْلٌ وَّخَرْقُ الْاِجْمَاع ‘‘قَولِ مَرجُوح پر فتویٰ اور حُکم دینا جَہَالَت اور اِجْمَاع کی مُخَالَفَت ہے ۔(د رمختار ج ۱ص ۱۷۶)میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں :جو قولِ جمہو رکے خلاف قولِ مرجوح پر حکم یا فتویٰ دے وہ ضرور جاہل وفاسق ہے۔ (ملخصاً فتاوٰی رضویہ، ج۲۲ ،ص ۵۱۵)
جواب کتنا طویل ہو ؟
{44}اِستفتاء کا جواب کتنا طویل ہونا چاہئے ! اس بارے میں میرے آقااعلیٰ حضرتعلیہ رحمۃُ ربِّ العزّت کے مختلف انداز ملتے ہیں کہ بعض سوالات کے جوابات آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک جملے میں دئیے ، بعض کے چند لائنوں میں ، بعض کے تو ایسے تفصیلی جوابات دئیے کہ وہ مستقل رسالے کی صورت اختیار کرگئے جیسا کہ فتاوٰی رضویہ جلد17صفحہ 395پر موجود رسالہ ’’کِفْلُ الْفَقِیْہِ الْفَاھِمِ فِیْ اَحْکَامِ قِرْطَاسِ الدَّرَاھِم(یعنی کاغذی نوٹ کے احکام کے بارے میں سمجھدار فقیہ کا حصہ)‘‘109صفحات پر مشتمل ہے جو 12سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے ۔۱؎ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّت کا انداز دیکھ کر سمجھ میں تو یہی آتا ہے کہ ’’جیسی صورت ویسی ترکیب ‘‘ ہونی چاہئے۔
مـــــــــــــــــــــــــدینہ
۱؎ : یہ رسالہ مع تخریج وتسہیل دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے ’’کرنسی نوٹ کے احکام ‘‘کے نام سے شائع ہوچکا ہے ، مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے ھدیۃً طلب کیجئے ۔