قدرتی طور پر ان کی داڑھی کے صرف چند بال تھے پھر بھی آپ نے انہیں اپنے چہرے پر سجا رکھا تھا ،اس سے سائل کو بہت ڈھارس ملے گی۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
{ 18}قراٰنِ پاک کی تفسیر بِالرّائے ۱؎ حرام ہے(فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص۳۷۳)فرمانِ مصطَفٰے صلّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّمہے : جس نے بِغیر علم قراٰن کی تفسیر کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنَّم بنائے۔( ترمذی ج ۴ ص۴۳۹ حدیث ۲۹۵۹ )
{ 19}اپنی اٹکل سے قراٰنی آیات و احادیثِ مبارَکہ سے اِستِدلال مت کیجئے،جو کچھ مفسّرِینِ کرام ومحدّثینِ عِظام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام نے فرمایا وُہی نقل کردیجئے۔اِلّا یہ کہ خود ایسے عالم بن چکے ہوں۔
{ 20 }اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف کوئی بات منسوب کرتے وَقت 112 بار سوچ لینا چاہیے۔پارہ 24 کی اس ابتِدائی آیت پر غور فرمالیجئے: فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنۡ کَذَبَ عَلَی اللہِ (پارہ۲۴، الزمر:۳۲)
ترجَمۂ کنزالایمان:تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینہ
۱ : تفسیر بِالرّائے کرنے والا وہ کہلاتا ہے جس نے قراٰن کی تفسیر عقل اور قِیاس (اندازہ) سے کی جس کی نقلی(یعنی شرعی) دلیل و سند نہ ہو۔مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں :قراٰنِ پاک کی بعض چیزیں نقل پر موقوف ہیں جیسے شانِ نزول، ناسخ منسوخ، تجوید کے قواعد انہیں اپنی رائے سے بیان کرنا حرام ہے اور بعض چیزیں شرعی عقل (یعنی قیاس) سے بھی معلوم ہوسکتی ہیں جیسے آیات کے علمی نکات اچھی اور صحیح تاویلیں ، پیدا ہونے والے اعتراضات کے جوابات وغیرہ ان میں نقل لازم نہیں غرض کہ قراٰن کی تفسیر بالرائے حرام ہے اور تاویل بالرائے علمائے دین کے لیے باعثِ ثواب۔(مراٰۃ المناجیح،ج۱،ص۲۰۸)