فتویٰ جاری کرنے میں شرعاً حَرَج نہیں ،گناہ خائن کے سر پر ہو گا ۔ تا ہم جن میں دشمن کی طرف سے اِلحاقات کر کے دین کو نقصانات پہنچائے جانے کے خطرات ہوں ایسے نازک فتاوٰی قلم سے لکھ لینے چاہئیں کہ اِس سے اگر چِہ اندیشے ختم نہیں ہوں گے مگر کم ضَرور ہو جائیں گے۔
{7}واٹر پروف قلم مَثَلاًبال پوائنٹ سے لکھنے کی عادت بنائیے ورنہ تحریر پر پانی گرجانے کی صورت میں آپ کو بَہُت بَہُت بَہُت صدمہ ہوگا۔حاصلِ مطالعہ یا کسی بھی اہم مضمون کو لکھتے وقت بھی یہ احتیاط کام دے گی۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
پہلے سوال سمجھئے پھر جواب لکھئے
{8}سوال کو اوّل تا آخر سمجھ کر پڑھئے کہ سائل کیا پوچھنا چاہتا ہے ،سرسری طور پر یا اَدھورا سوال پڑھ کر جواب لکھنے کا آغاز کردینا ضیاعِ وقت کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ سوال میں کچھ پوچھا گیا ہو،آپ کا جواب کچھ اورہو !
{9} اگر سوال میں کوئی بات وضاحت طلب ہو یا کسی طرح کا اِبہام ہوتوحسبِ ضرورت سائل سے پوچھ لیجئے ۔
{10}بسا اوقات سوا ل بہت طویل ہوتا ہے اور لمبے چوڑے سوال میں کہاں فقہی حکم پوچھا گیا ہے یہ سمجھنا اصل کمال ہے ۔لھٰذا سوال پڑھ کرسب سے پہلے آپ یہ تَعَیُّن کرلیجئے کہ آپ نے کس حصے کا جواب لکھنا ہے،پھر اس حصے کا جواب لکھئے۔
{11} سوال آسان لگے یا مشکل! یکساں توجہ سے جواب لکھئے ۔کسی سوال کو