کیجئے ۔فی زمانہ حالات ناگفتہ بہ ہیں ،عوام میں دینی مسائل سیکھنے کا رُجحان پہلے ہی کم ہے اگر آپ ڈانٹ پلاکر،طنز کے تیر برسا کر اس کا دِل چَھلنی کریں گے تو قوی اِمکان ہے کہ شیطان اُسے آپ سے ایسا بدظن کردے کہ پھر وہ کبھی آپ کے پاس آنے کی ہمت ہی نہ کرسکے اور حسبِ سابق جہالت کے سمندر میں غوطہ زن رہے ۔ اس لئے نرمی ،نرمی اور صرف نرمی ہی سے کام لیجئے ، ہمارے میٹھے میٹھے آقا صلّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّمنے کبھی بھی کسی مسلمان کا دل نہ دُکھایا،نہ کسی پر طنز کیا،نہ کسی کا مذاق اڑایا ،نہ کسی کو دُھتکارا ، نہ کبھی کسی کی بے عزّتی کی، بس ہر ایک کو سینے سے لگایا،بلکہ ؎
لگاتے ہیں اُس کو بھی سینے سے آقا
جو ہوتا نہیں منہ لگانے کے قابل
’’12دارالافتاء‘‘ قائم کرنے کا ھدف
بہت عرصہ قبل کسی دینی مَدرسے سے وابستہ اسلامی بھائی نے مجھے بتایا کہ ’’ہمارے یہاں جب کوئی کم پڑھالکھا سائل مسئلہ دریافت کرنے کے لئے آتا ہے تو بسا اوقات اندازِ بیان یا طرزِ تحریر پر اُسے خوب جھاڑ پلائی جاتی ہے، مثلاً کہا جاتا ہے : کہاں پڑھے ہو! آپ کو اُردو میں سوال لکھنے کا بھی ڈھنگ نہیں معلوم!وغیرہ،اس طرح لوگ بدظن ہوکر چلے جاتے ہیں ،اُن کی پرواہ نہیں کی جاتی ،کبھی میں دیکھ لیتا ہوں تو ایسوں کو سنبھالنے کی سعی کرتا ہوں۔ ‘‘یہ باتیں سُن کر میرے (یعنی سگِ مدینہ کے)دل پر چوٹ لگی اور میرے منہ سے نکلا ’’ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّہم 12 دارالافتاء کھولیں گے۔‘‘