بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما جیسے لوگ شامل تھے شیخ کو گھیرے ہوئے تھا۔حضرتِ سیِّدُنا فَرُّوخرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نماز پڑھنے کے لیے مسجدِ نبوی شریف میں گئے تو یہ منظر دیکھا کہ ایک حلقہ لگا ہوا ہے اورلوگ بڑے ادب وتوجہ سے علمِ دین سیکھ رہے ہیں اورایک خوبرونوجوان انہیں درس دے رہا ہے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قریب گئے تو لوگوں نے آپ کے لئے جگہ کشادہ کی۔ حضرتِ سیِّدُنا ربیعہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سرجھکائے ہوئے بیٹھے تھے۔ اس لیے آپ کے والد محترم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہانہیں پہچان نہیں سکے،ا ور حاضرین سے پوچھا:’’ علم کے موتی لٹا نے والے یہ ’’شیخ الحدیث‘‘ کون ہیں ؟‘‘ لوگوں نے بتایا:’’یہ ربیعہ بن ابوعبدالرحمن ہیں ۔‘‘ یہ سن کر فرطِ مُسرَّت میں ان کی زبان سے یہ جملہ نکلا کہ ’’ لَقَدْ رَفَعَ اللہُ اِبْنِی یقیناًاللہ ربُّ العزَّت نے میرے بیٹے کوبڑا عظیم مرتبہ عطافرمایاہے !‘‘پھرخوشی خوشی زوجہ کے پاس آئے اور فرمایا:’’میں نے تمہارے لختِ جگر کو آج ایسے عظیم مرتبے پر فائز دیکھا کہ اس سے پہلے میں نے کسی علم والے کو ایسے مرتبے پر نہیں دیکھا۔‘‘ زوجۂ محترمہ نے پوچھا :’’ آپ کو اپنے تیس ہزار دینار چاہئیں یا اپنے بیٹے کی یہ عظمت ورفعت ۔‘‘ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا:’’ خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم !مجھے اپنے نورِ نظر کی شان درہم ودینار سے زیادہ پسند ہے۔‘‘ وہ کہنے لگیں :’’میں نے وہ سارا مال آپ کے بیٹے کی تعلیم