Brailvi Books

قسط 5: علم وحکمت کے 125مَدَنی پھول تذکرہ امیرِ اہلسنّت
10 - 100
وہ بہت ہیں۔‘‘ وہ انصاری کہنے لگے : ’’ابن عباس! اتنے صحابیوں  کی موجودگی میں  لوگوں  کو بھلا تمہاری کیا ضرورت پڑے گی؟‘‘ چُنانچِہ میں  اکیلا ہی علم حاصل کرنے میں  لگ گیا۔ بارہا ایسا ہوا کہ مجھے پتا چلتا کہ فلاں  صحابی  رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس فلاں  حدیث ہے میں  اُن کے گھر دوڑا  جاتا۔ اگر وہ قیلولے میں (یعنی آرام کر رہے) ہوتے تو میں  اپنی چادر کا تکیہ بنا کر ان کے دروازے پر پڑا رہتا ، گرم ہوا میرے چہرے کو  جھلساتی رہتی ۔ جب وہ صحابی  رضی اللہ تعالٰی عنہ باہر آتے اور مجھے اس حال میں  پاتے تو متاثر ہو کر کہتے:’’رسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم کے چچا کے بیٹے! آپ کیا چاہتے ہیں ؟‘‘ میں  کہتا :’’ سنا ہے آپ رسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم کی فلاں  حدیث روایت کرتے ہیں ، اسی کی طلب میں  حاضر ہوا ہوں۔‘‘ وہ کہتے:’’آپ نے کسی کو بھیج کر مجھے بُلوا لیا ہوتا ۔‘‘ میں  جواب دیتا :’’ نہیں ، اس کام کے لیے خود مجھے ہی آنا چاہیے تھا۔ ‘‘اس کے بعد یہ ہوا کہ جب اصحابِ رسول  رضی اللہ تعالٰی عنہم دنیا سے رخصت ہو گئے تووہی اَنصاری جب دیکھتے کہ لوگوں  کو میری کیسی ضرورت ہے تو حسرت سے کہتے :’’ابنِ عباس! تم مجھ سے زیادہ عقل مند تھے۔‘‘ (سُنَنُ الدَّارَمِی ج۱ ص۱۵۰ حدیث۵۷۰ )
  اللہ عَزَّوَجَلَّکی  اُن پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
ٰٰامین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!               صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدٍ
شوقِ فاروقی
	 حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظمرضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرا  ایک انصاری