دفتر تین ہیں ، ایک دفتر میں سے اللہ تعالیٰ کچھ نہ بخشے گا اور ایک دفتر کی اللہ تعالیٰ کو کچھ پروا نہیں اور ایک دفتر میں سے اللہ تعالیٰ کچھ نہ چھوڑے گا، وہ دفتر جس میں اَصلاً معافی کی گنجائش نہیں وہ تو کفر ہے کہ کسی طرح نہ بخشا جائے گا اور وہ دفتر جس کی اللہ عزوجل کو کچھ پروا نہیں وہ بندے کا گناہ ہے خالص اپنے اور اپنے رب کے معاملہ میں کہ کسی دن کا روزہ ترک کیا یا کوئی نماز چھوڑ دی ، اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے معاف کر دے اور در گزر فرمائے، اور وہ دفتر جس میں سے اللہ تعالیٰ کچھ نہ چھوڑے گا وہ بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم ہے کہ اس میں ضرور بدلہ ہونا ہے۔ (’’المسند‘‘ لأحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۶۰۹۰، ج۱۰، ص۸۲)۔
اسی طرح حقوق میں تَقْصِیْرَات کل بروزِ قیامت سخت خسارے کا باعث ہو سکتی ہیں۔ دوست احباب، اَعزہ واقربا تو دور کی بات! اگر ماں باپ کا اپنی اولاد پر کچھ حق آتا ہو گا تو یہ اپنے جگر کے ٹکڑے پر لپٹتے ہونگے کہ ہمیں ہمارا حق دے، وہ کہے گا: میں تمہارا بچہ ہوں ، یعنی شاید رحم کریں ، وہ تمنا کرینگے کاش اور زیادہ ہوتا۔ حدیث پاک میں آتا ہے:
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے: والدین کا بیٹے پر دَین ہوگا قیامت کے روز والدین بیٹے پرلپٹیں گے توبیٹا کہے گا: میں تمہارا بیٹا ہوں تو والدین کو حق دلایا جائے گا اور تمنَّا کریں گے کاش ہمارا حق اور زائد ہوتا! (’’المعجم الکبیر‘‘، الحدیث: ۱۰۵۲۶، ج۱۰، ص۲۱۹)۔
بہر حال حقوق العباد کا معاملہ نہایت نازک ترین ہے جن کی ادائیگی کا حکم قرآن وحدیث میں نہایت ہی تاکید کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ بندہ کسی بھی طرح کسی دوسرے بندے کے حقوق پامال نہ کرے لیکن سُستی وغفلت کے باعث ان حقوق کی ادائیگی نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی سُستی اور غفلت کے باعث ان حقوق کی ادائیگی مشکل سے