………………………………………………………
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
= مذکورہ بالا سطور میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے حقوق العباد کی تقسیم دُیُون اور مَظالِم کی صورت میں ارشاد فرمائی اور پھر مزید ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کے مابین عُمُوم خُصُوص مِنْ وَجْہٍ کی نسبت ہے جو کہـ’’علمِ منطق‘‘ کی ایک اصطلاح ہے ۔ اس اصطلاح کی تعریف اورتفصیل جاننے سے پہلے چند ایک ضروری اصطلاحات ملاحظہ فرمالیں:
مفہوم: کسی بھی چیز کا وہ تصور جو ذہن میں حاصل ہو وہ اس چیز کا مفہوم کہلاتا ہے۔
مفہوم کی دو قسمیں ہیں: (۱) کلی (۲) جزئی
کلی: جو تصور ذہن میں حاصل ہواس کا اطلاق اگرکثیر افراد پر ہو تو اسے’’ کلی‘‘کہتے ہیں ،جیسے: انسان کہ اسکا اطلاق ہر فرد انسانی پر ہوتا ہے۔
جزئی: جو تصور ذہن میں حاصل ہو اس کا اطلاق اگرکثیر افراد پرنہ ہو بلکہ کسی معین شخص یا بعض معین اشخاص پر ہو تو اسے’’ جزئی‘‘کہتے ہیں۔ جیسے: زید اورمرد کہ’’ زید‘‘ کا اطلاق ایک معین شخص جبکہ’’مرد ‘‘کا اطلاق چند معین اشخاص (جو مرد ہیں اُن) پر ہوتا ہے ۔
نسبت عموم خصوص من وجہ کی تعریف:
چنانچہ نسبت عموم خصوص من وجہ سے مراد وہ نسبت ہے کہ اس نسبت کی وجہ سے دونوں کلیوں (جن دو کلیوں میں یہ پائی جارہی ہے ) کے بعض افراد دوسری کلی کے بعض پر صادق آئیں لیکن دونوں کلیوں میں سے کسی بھی کلی کے تمام افراد دوسری کلی کے تمام پر صادق نہ آتے ہوں۔ مثلاً دَین اور مظلمہ کو ہی لے لیجیے کہ یہ دونوں باعتبارِ مفہوم کلی ہیں کہ ہر ایک کے باعتبارِ مفہوم کثیر افراد ہیں۔
مثلاً: دَین ایک کلی ہے جسکے افراد: خریدی چیز کی قیمت، مزدور کی اجرت، عورت کا مہر وغیرہا ہیں۔ اور مظلمہ بھی ایک کلی ہے جسکے افراد: مارنا ، گالی دینا، بُرا کہنا وغیرہاہیں۔=