ثانی کو مَظالِم(1)، اور دونوں کو تَبِعات(2) اور کبھی دُیُون بھی کہتے ہیں ۔
ان دونوں قسم میں نسبت عُمُوْمْ خُصُوْصْ مِنْ وَجْہٍہے یعنی کہیں تو دَین پایا جاتا ہے مَظْلِمَہ (ظلم) نہیں ، جیسے خریدی چیز کی قیمت، مزدور کی اُجرت، عورت کا مہر وغیرہا دُیُون کہ عقود ِجائزہ شرعیّہ (جائز شرعی قول وقرار) سے اس کے ذمہ لازم ہوئے اور اس نے اُن کی ادا میں کمی وتاخیرِ نارَوَا نہ بَرْتی (بے جا تاخیر نہ کی) یہ حق العبد تو اس کی گردن پر ہے مگر کوئی ظُلْم نہیں۔ اور کہیں مظلمہ پایا جاتا ہے دَین نہیں جیسے کسی کو مارا، گالی دی، بُرا کہا، غیبت کی کہ اس کی خبر اسے پہنچی، یہ سب حُقوق العبد وظُلم ہیں مگر کوئی دَین واجبُ الادا نہیں ، (ان صورتوں میں تکلیف تو پہنچائی لیکن اس پرمال دینا لازم نہیں ہوا) اور کہیں دَین اور مظلمہ دونوں ہوتے ہیں جیسے کسی کا مال چرایا، چھینا، لوٹا، رشوت، سود، جُوئے میں لیا، یہ سب دُیُون بھی ہیں اور ظلم بھی(3)۔
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(1) مظالِم مَظْلِمَۃٌ کی جمع ہے جس کے معنی ظلم وستم ونا انصافی کے ہیں۔
(2) تَبِعات تَبِعَۃٌ کی جمع ہے جس کا معنی تاوان یا ڈنڈ ہے۔
(3) مذکورہ بالامنطقی طرز پر مبنی تفصیل کو عام فہم زبان میں یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ
حقوق العبادکی دو قسمیں ہیں:
(۱) دُیُون (مطالبہ ٔمالی) ۔
(۲) مَظالِم(ظلم وستم ، یعنی: اجازت ِشرعی کے بغیر کسی کو اپنے کسی قول ، فعل یا کسی نا مناسب حرکت کے ذریعے تکلیف پہچانا) ۔
انسان جن دو طرح کے حقوق میں گرفتار ہوجاتا ہے کبھی ان کا تعلق صرف دُیُون سے ہوتا ہے اور کبھی صرف مظالم سے، اور کبھی کبھار وہ اپنے قول و فعل سے اس طرح کی حرکت کر بیٹھتا ہے کہ حقوق العباد کی دونوں ہی قسمیں پامال ہو جاتی ہیں ۔=