دیتاہے، یقینااس ناگن کی طبیعت بھی بدل گئی ہوگی کہ جس طرح یہ سونے کے انڈوں کے بجائے اب موتی دینے لگی ہے، اسی طرح اس کازہربھی ختم ہوگیا ہوگا،چُنانچِہ اب مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں ۔‘‘یہ سوچ کر اس نے ناگن کو مارنے کا اِرادہ تَرْک کردیا۔روزانہ ایک قیمتی موتی ملنے پر وہ لالچی شخص بہت خوش رہنے لگااورناگن کی پرانی دھوکہ بازی کوبھول گیا۔ایک دن اس نے ساراسونااور موتی برتن میں ڈ الے اور اس پر سر رکھ کر سوگیا۔اسی رات ناگن نے اُسے بھی ڈَس لیا ۔ جب اس کی چیخیں بلندہوئیں توآس پاس کے لوگ بھاگم بھاگ وہاں پہنچے اوراس سے کہنے لگے:’’ تم نے اسے مارنے میں سُستی کی اورلالچ میں آکراپنی جان داؤ پر لگا دی !‘‘ لالچی شخص شرم کے مارے کچھ نہ بول سکا ،سونے سے بھراہوابرتن اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے حوالے کیا اور کراہتے ہوئے بڑی مشکل سے کہا:’’ آج کے دن میرے نزدیک اس مال کی کوئی قدر وقیمت نہیں کیونکہ اب یہ دوسروں کاہوجائے گا اورمیں خالی ہاتھ اس دنیا سے چلاجاؤں گا۔‘‘کچھ ہی دیرمیں اُس کا اِنتقال ہوگیا ۔(عیون الحکایات،الحکایۃ الثامنۃ بعد الخمسمائۃ،ص۹۳۴ملخصاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے دیکھا کہ مال ودولت کی حِرْص نے ہنستے بستے گھرانے کو اُجاڑ کر رکھ دیا !یقیناحریص کی نگاہ محدود ہوتی ہے جو صرف وقتی فائدہ دیکھتی ہے جس کی وجہ سے وہ دُرُست فیصلے کرنے میں ناکام رہتا ہے اورنقصان اُٹھاتا ہے۔حکایت میں مذکور گھر کے سربراہ کو سنبھلنے کے کئی مواقع ملے لیکن مُفْت کی