Brailvi Books

حضرتِ سَیِّدُنا طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
9 - 55
اپنے عبادت خانہ میں  موجود لوگوں  سے کہہ رہا تھا: سرزمینِ عرب سے آنے والے ان معزز تاجروں  سے ذرا یہ تو معلوم کرو کیا ان میں  کوئی حرم کا رہنے والا بھی ہے؟ تو وہ معزز قریشی تاجر آگے بڑھ کر بولا: جی ہاں ! میں  حرم کا رہنے والا ہوں۔ راہب کو معلوم ہوا تو اس نے بڑی بیتابی سے اس قریشی جوان سے پوچھا: ’’کیا آپ کے ہاں  احمد نامی کسی ہستی کا ظہور ہوا ہے؟‘‘ تاجر نے پوچھا: ’’یہ کون ہیں ؟‘‘ تو راہب نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا تعارف کچھ یوں  کرایا: ’’ یہ حضرت عبد المطلب کے نورِ نظر حضرت عبد اللہ کے لختِ جگر ہیں۔ ان کے ظہور کا ماہِ مبارک یہی ہے، وہ آخری نبی ہیں  اور ان کا ظہور سرزمینِ حرم (مکۃ المکرمہ) سے ہو گا، پھر وہ اس جگہ ہجرت کریں  گے جہاں  کی زمین تو پتھریلی اور شور زدہ ہو گی مگر وہاں  کھجوروں  کے باغات کثرت سے ہوں  گے، تمہیں  تو ان کی بارگاہ میں  فوراً حاضر ہونا چاہئے۔‘‘ 
	وہ قریشی تاجر فرماتے ہیں  کہ راہب کی باتیں  میرے دل میں  گھر کر گئیں  اور میں  فوراً وہاں  سے چل پڑا یہاں  تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر ہی دم لیا۔ مکہ شریف پہنچتے ہی لوگوں  سے پوچھا کہ کوئی نئی خبر ہے؟ تو انہوں  نے بتایا :ہاں ! محمد بن عبد اللہ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) جنہیں  ہم امین کے طور پر جانتے ہیں ، نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابن ابی قحافہ (یعنی امیر المؤمنین سیِّدُنا ابو بکررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)