پہلے اسے پڑھ لیجئے
عالمِ زیست پر ہر طرف مایوسی اور محرومی کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے، انسانیت اخلاقی پستی کا شکار تھی کہ عالم کے نجات دہندہ، محمد مصطفیٰصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تشریف لائے اور ان تمام زنجیروں کو کاٹ ڈالا جن میں انسانیت بری طرح جکڑی ہوئی تھی اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے فیضِ تربیت کے اثر سے انسانیت اخلاقی پستیوں سے نکل کر آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اپنی رات دن کی کوشش سے جو نیاز مند تیار کئے وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی محبت اور عشق میں اتنے سرشار اور وارفتہ تھے کہ اپنے آقا کے اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کر دینا سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ہر حکم کی تعمیل اور پیروی ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ اور شمع رسالت کے ان پروانوں نے اپنی بے مثال محبت کا ثبوت دیتے ہوئے جب بی بی آمنہ کے لال، رسولِ بے مثال صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر اپنی جانیں نثار کیں تو ربّ جلال عَزَّوَجَلَّ نے انہیں اپنی رضا کا مژدۂ جاں فزا یوں سنایا:
رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوۡا عَنْہُ ؕ(پ۲۸، المجادلۃ:۲۲)
ترجمۂ کنز الایمان: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! فیضِ نبوت سے تربیت پانے اور ربّ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کا مژدۂ حاصل کرنے والی ان ہستیوں نے اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے جو قربانیاں دیں ان کا حقیقی صلہ تو یقینا انہیں آخرت میں ملے گا مگر کچھ ہستیاں