اب تک سختی پائی جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، کتاب الادب، باب تحویل الاسم الی اسم احسن منہ، الحدیث: ۶۱۹۳، ص۵۲۲)
اور ایک روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک شخص سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے بتایا: ’’جَمْرَہ (یعنی دھکتا ہوا انگارا)۔‘‘ باپ کا نام پوچھا تو بولا: شِہَاب (یعنی سلگتی آگ کا شعلہ)۔ قبیلے کا نام دریافت کرنے پر اس نے بتایا: حُرَقَہ (آگ میں جل کر سیاہ ہو جانے والی شے)۔ وطن کا نام پوچھا تو اس نے جواب دیا: حَرَّۃُ النَّار (آگ کی تپش)۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا کہ یہ کہاں واقع ہے؟ عرض کی کہ یہ ذَاتُ لَظٰی (آگ کی لپٹ جس میں دھواں نہ ہو) میں ہے۔ اس شخص کا یہ تعارف سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اپنے اہل وعیال کی جلد خبر لو کہیں وہ جل کر خاک نہ ہو گئے ہوں۔ وہ شخص اپنے گھر گیا تو واقعی اس کے گھر کو آگ لگ چکی تھی اور سب کے سب جل مرے تھے۔ (المؤطا، کتاب الاستئذان، باب مایکرہ من الاسماء، الحدیث:۱۸۷۱، ج۲، ص۴۵۴)
اہم نوٹ: بچوں کے نام کیسے رکھے جائیں اس کے متعلق مزید شرعی رہنمائی حاصل کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب، ’’بہارِ شریعت‘‘ حصہ سولہواں کا مطالعہ کیجئے۔