حضرت سیِّدُنا ابو وہب جشمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’انبیا (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کے ناموں پر نام رکھو۔‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الادب، باب فی تغیر الاسمائ، الحدیث:۴۹۵۰، ج۴، ص۳۷۴)
ناموں کی تاثیر:
پیارے اسلامی بھائیو! بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں اسم با مُسَمّٰی ہے‘‘ یعنی جیسا نام ویسی اس کی شخصیت ہے۔ چنانچہ، دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب، ’’بہارِ شریعت‘‘ حصہ سولہ صَفْحَہ 244 پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ایک حدیثِ پاک نقل فرمائی ہے کہ سعید بن مُسَیَّب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی، کہتے ہیں ، میرے دادا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے پوچھا: تمہارا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا: حَزْن۔ فرمایا: تم سَہْل ہو۔ یعنی اپنا نام سَہْل رکھو کہ اس کے معنی ہیں نرم اور حَزْنسخت کو کہتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ جو نام میرے باپ نے رکھا ہے، اسے نہیں بدلوں گا۔ سعید بن مُسَیَّب کہتے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم میں