میدانِ حشر بپا ہوگا تو وہ اسی نام سے مالکِ کائنات عَزَّوَجَلَّکے حضوربلایا جائے گا جیسا کہ حضرت سیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آبا کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہٰذا اپنے اچھے نام رکھا کرو۔‘‘
(سنن ابی داود، کتاب الادب، باب فی تغیر الاسمائ، الحدیث ۴۹۴۸، ج۴، ص۳۷۴)
اس حدیثِ پاک سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو اپنے بچے کانام کسی فلمی اداکار یا (مَعَاذَ اللہ) کفار کے نام پر رکھ دیتے ہیں ، اس سے بدترین ذِلَّت کیا ہوگی کہ مسلمانوں کی اولاد کو کل میدانِ محشر میں کافروں کے ناموں سے پکارا جائے۔
ہمارے معاشرے میں بچے کے نام کے انتخاب کی ذمہ داری عموماً کسی قریبی رشتہ دار مثلاً دادی، پھوپھی، چچا وغیرہ کو سونپ دی جاتی ہے اور عموماً مسائلِ شرعیہ سے نابلد ہونے کی وجہ سے وہ بچوں کے ایسے نام رکھ دیتے ہیں جن کے کوئی معانی نہیں ہوتے یا پھر اچھے معانی نہیں ہوتے، ایسے نام رکھنے سے احتراز کیا جائے۔ انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اسمائے مبارکہ اورصحابہ کرام وتابعین عظام اور اولیاءے کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے نام پر نام رکھنے چاہئیں جس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ بچے کا اپنے اسلاف سے روحانی تعلق قائم ہوجائے گا اور دوسرا ان نیک ہستیوں سے موسوم ہونے کی برکت سے اس کی زندگی پر مَدَنی اَثرات مرتب ہوں گے ۔