پیارے اسلامی بھائیو! قریشی سردار نوفل بن خویلد کو قریش کا شیر کہا جاتا تھا، یہ قریشی سردار دینِ اسلام کا پرچم تھامنے والوں پر اس قدر ظلم و ستم ڈھاتا کہ حضور نبی ٔرحمت، شفیعِ اُمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اپنے پیارے ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ سے اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے دعا کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں اس کے شر سے محفوظ فرما۔ چنانچہ، امیر المؤمنین سیِّدُنا ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اس قریشی تاجر نے اسلام کیا قبول کیا اس ظالم سردار نے ان حضرات پر ظلم کی انتہا کر دی۔ اس نے ان دونوں کو ایک ہی رسی میں باندھنے کا حکم دیا تا کہ یہ حضرات خدائے وحدہٗ لا شریک کی عبادت نہ کر سکیں اور رسی سے باندھنے والا بھی کوئی غیر نہ تھا بلکہ اس قریشی تاجر کا اپنا سگا بھائی (عثمان بن عبید اللہ) تھا۔ ان حضرات کو ایک ہی رسی میں باندھا تو اس لئے گیا تھا کہ یہ اسلام سے منہ پھیر لیں مگر ان کے پایۂ استقلال میں ذرہ برابر فرق نہ آیا کیونکہ دشمنانِ اسلام نے ظاہری طور پر ان حضرات کے جسموں کو رسی میں باندھ رکھا تھا مگر ان کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی محبت کی ڈور سے بندھے ہوئے تھے۔ پھر بعد میں یہ دونوں حضرات قَرِیْنَیْن (دو ساتھی) کے نام سے پکارے جاتے۔ (دلائل النبوۃ للبیھقی، باب من تقدم اسلامہ من الصحابۃ، ج۲، ص۱۶۶ تا ۱۶۷ مفہوماً)