ان پر ایمان بھی لے آئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا:’’کیا آپ نبی ٔپاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر ایمان لے آئے ہیں ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں ! اور چلو تم بھی ان کی بارگاہ میں حاضر ہونے میں دیر مت کرو کیونکہ وہ حق کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘ تاجر کا دل راہب کی باتوں سے اسلام کی طرف مائل ہو چکا تھا۔ عاشقِ اکبر، سیِّدُنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نیکی کی دعوت سے بھرپور باتیں سن کر مزید متأثر ہوا اور اس نے راہب کی تمام باتیں بھی بتا دیں۔ چنانچہ، امیر المؤمنین سیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے قبیلے کے اس نوجوان تاجر کو لے کر دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور بصرہ کے راہب اور عاشقِ اکبر کی باتوں سے متاثر ہونے والا یہ قریشی تاجر آخر کار سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دامنِ با برکت سے وابستہ ہو کر مسلمان ہو گیا اور جب اس نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو راہب کی باتیں بتائیں تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بہت خوش ہوئے۔(دلائل النبوۃ للبیھقی، باب من تقدم اسلامہ من الصحابۃ، ج۲، ص۱۶۶ ۔ والمستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ذکر مناقب طلحۃ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، ج۴، ص۴۴۹)