Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
9 - 70
طلوعِ آفتابِ عالَم تاب
آخر باطل کا پردہ چاک ہوتا ہے اور شبِ دَیجور کا اندھیرا چھٹتا ہے۔ وادیٔ بطحا کے اُفق سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نورِ ہدایت کا آفتابِ عالم تاب بن کرجلوہ گرہوتے ہیں  جس کی تابانیوں سےنہ صرف کرۂ ارض بقعۂ نور (روشن جگہ) بن جاتاہے بلکہ مخلوق کا خالقِ حقیقی سے ٹوٹاہوارشتہ بھی دوبارہ استوار ہو جاتا ہے۔ 
اسلام کی نوخیز کلی:
وادیٔ بطحا کے ایک نوجوان نے جب کفر کی اندھیری وادیوں  سے نکل کر نور کے پیکر، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوتِ حق پر لبیک کہا تو باطل کی اندھیری وادیوں  میں  بھٹکنے والا اس کا چچا یہ گوارا نہ کر سکا اور غصے سے بے قابو ہوکر اس نے یہ ارادہ کر لیا کہ اپنے بھتیجے کو مجبور کر دے گا کہ وہ نئے دین کو چھوڑ کر پھر اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آئے۔ چنانچہ اس نے اسلام کی اس نوخیز کلی کو ایک چٹائی میں  لپیٹا، پھر رسی سے باندھ کرلٹکادیا اور نیچے سے دھواں  دینے لگا تاکہ آج کی یہ کلی کل کاحسین و مہکتاپھول نہ بن سکے۔ پھر اس باطل پرست نے حق کے علمبردار سے کہااس عذاب سے بچناچاہتےہوتواسلام سےمنہ موڑ لو مگر جس کا دل نورِ ایمان سے منور ہو جائے اس کے سامنے دنیا کی تمام تکلیفیں  ہیچ ہیں۔بھلا