Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
66 - 70
اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے مجھے وصیت فرمائی اور کہا: ”اگر تم میرے قرض کی ادائیگی سے عاجز آجاؤ تو میرے مولیٰ سے مدد طلب کرنا۔“ فرماتے ہیں  کہ خدا کی قسم! میں  نہ سمجھ سکا کہ مولیٰ سے ان کی کیا مراد ہے؟ چنانچہ میں  نے استفسار کیا: اے ابا جان! آپ کا مولیٰ کون ہے؟ تو ارشاد فرمایا : ”میرا مولیٰ ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ ہے۔“ پس آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے قرض کی ادائیگی میں  ایسی غیبی مدد ہوئی کہ خدا کی قسم! ذرہ بھر دقت و بوجھ کا احساس نہ ہوا کیونکہ جب بھی میں  کوئی پریشانی یا تنگی محسوس کرتا تو ہاتھ اٹھا کر عرض کرتا: ”اے زبیر کے مالک و مولیٰ! ان کے قرض کی ادائیگی میں  غیبی مدد فرما۔“ دعا مانگتے ہی مدعا پورا ہو جاتا۔ 
فرماتے ہیں  کہ جب حضرت سیِّدُنا زُبَیْربن عَوَام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  نے جامِ شہادت نوش فرمایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  نے کوئی درہم و دینارنہ چھوڑا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے ترکہ میں  صرف غابہ کی چند زمینیں  اور کچھ (تقریباً پندرہ) گھر تھے اور قرضے کا عالم یہ تھا کہ جب کوئی شخص ان کے پاس امانت رکھنے کے لئے آتا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے: ’’امانت نہیں ، قرض ہے کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘ لہٰذا جب میں  نے حساب لگایا تو وہ بیس لاکھ (20,00,000) بنا، پس میں  نے وہ قرض ادا کر دیا۔
علاوہ ازیں  حضرت عبد اللہ بن زُبَیْر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما   کا طریقہ کار یہ تھا