Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
61 - 70
کرتے جیسا کہ دوسرے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کرتے ہیں ؟ تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواب دیا: خدا کی قسم! میں  جب سے اسلام لایا ہوں  ہمیشہ سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رہا ہوں  مگر (احادیثِ مبارکہ بیان نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ) میں  نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے سنا ہے: ”جو کوئی جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھے تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں  بنا لے۔“(1)
حافظ ابن عساکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تاریخ مدینہ دمشق المعروف تاریخ ابن عساکر میں  فرماتے ہیں  کہ حضرتِ سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کو بیانِ حدیث میں  اپنی ذات پر اس بات کا کوئی ڈر نہ تھا کہ وہ جان بوجھ کر اس میں  جھوٹ کی کوئی آمیزش کریں  گے، البتہ! غلطی و خطا کی وجہ سے تحریف و اضافہ ہونے کے اندیشے کے سبب اس وقت تک آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حدیثِ پاک بیان نہ فرماتے جب تک اس کا یقینی طور پر فرمانِ رسول ہونا ثابت نہ ہو جاتا۔(2)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہ کسی قول کو فقط شک یا غالب ظن ہونے کی بنا پر بطورِ حدیث بیان کرنا جائز نہیں  جب تک کہ یہ کامل یقین نہ ہو جائے کہ قول حدیثِ پاک ہی ہے۔
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)…صحیح البخاری کتاب العلم،باب اثم من کذب علی النّبی، ج۱،ص۵۷، الحدیث: ۱۰۷
(2)…تاریخِ مدینہ دمشق،زبیربن عوام،ج۱۸،ص۳۳۷