استفسار فرمایا: ’’ کیا یہ فقط تمہاری رائے ہے یا قوم کا مطالبہ ہے؟‘‘ عرض کی: ’’قوم کا مطالبہ ہے۔‘‘ تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پوچھا: ’’ تمہاری رائے میں کون منصبِ خلافت کے لائق ہے؟‘‘ اس پر اُ س نے کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دیر میں حضرتِ حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی حاضرِ خدمت ہو کر قوم کایہی مطالبہ دہرایا تو حضرتِ عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پوچھا: ’’کس کو بناؤں ؟‘‘ جواب میں حضرتِ حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی خاموش رہے تو امیر المومنین نے خود ہی ارشاد فرمایا کہ قوم کی رائے شاید حضرت زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے حق میں ہو گی۔ اِس پر حضرتِ حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے عرض کی: ”بالکل قوم کی رائے انہی کے حق میں ہے۔“ تو حضرتِ عثمانِ غنیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرتِ سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جہاں تک مجھے علم ہے وہ قوم کے بہترین آدمی ہیں اور رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ان کے ساتھ بہت محبتتھی۔“(1)
جنات کے وفد سے ملاقات:
حضرتِ سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رحمتِ عالم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہمیں مسجدِ نبوی
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)…صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النّبی ،مناقب زبیر بن العوام، الحدیث:۳۷۱۷ ، ج۲، ص۵۳۹