Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
55 - 70
جب مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے یہ دونوں  سفیر دن رات سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں  کہ کفار بد اطوار نے تختۂ دار کے گرد چالیس نیام بردار پہرے دار کھڑے کر رکھے تھے اور حضرتِ خبیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا جسدِ عالی چالیس دن گزرنے کے بعد بھی بالکل ترو تازہ تھا۔ 
جبیں میلی نہیں  ہوتی دھن میلا نہیں  ہوتا
غلامانِ محمد  کا کفن میلا نہیں  ہوتا
حضرتِ سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بڑی ہوشیاری سے عاشقِ مصطفےٰ کے لاشہ مبارک کو گھوڑے پر رکھا اور چل پڑے مگر اسی اثنا میں  ستر کفارِ ناہنجار نے آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو گھیر لیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جیسے ہی مجبوراً جسد خاکی کو زمین پر رکھا تو عاشق کے فراق میں  پہلے سے بے تاب زمین نے لاش کو ہمیشہ کے لئے اپنی آغوش میں  لے لیا یہی وجہ ہے کہ حضرت خبیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ”بَلِیْعُ الْاَرْض“ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ 
پس حضرتِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کفار کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے گروہِ قریش! تمہیں  ہمارے خلاف تلوار اٹھانے کی جراءت کیسے ہوئی؟ پھر اپنا عمامہ سر سے اتار کر فرمانے لگے: مجھے پہچانو! میں  زُبَیر بِن عَوَّام ہوں ، میری والدہ حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پھوپھی حضرتِ صفیہ ہیں