Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
54 - 70
بَزَبانِ زائِریں  تو میں  سلام بھیجتا ہوں
کبھی خود سلام لاتا تو کچھ اور بات ہوتی
مِری آنکھ جب بھی کھلتی تِری رَحمتوں  سے آقا
تجھے سامنے ہی پاتا تو کچھ اور بات ہوتی
کیوں  مدینہ چھوڑ آیا تجھے کیا ہوا تھا عطارؔ
وَہیں  گھر اگر بساتا تو کچھ اور بات ہوتی
اسی دوران کفار نے نیزوں  کے پے درپے وار کرکے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو شہید کر دیا۔ اُدھر عاشق کی سچی تڑپ کام آئی اور سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں  کے مددگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ان کی حالت ِ زار کی خبر ہو گئی۔
فریاد اُمتی جو کرے حالِ زار میں
ممکن نہیں  کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو
پس آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو کوئی خبیب کا جسدِ خاکی سولی سے اُتار کر لائے گا اس کے لیے جنت ہے۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام نے سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دلِ بیقرار کی اس پکار پر فوراً لبیک کہتے ہوئے عرض کی: ”یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !میں  اور میرے ساتھی حضرت مقداد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اس سعادت کے لیے حاضر ہیں۔“