Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
53 - 70
نے نمازاداکی، سلام پھیرنے کے بعدارشاد فرمایا: ”دل تو چاہ رہا تھا زندگی کی آخری نماز کو مزید طویل کردوں  لیکن اس لیے جلد ختم کردی کہیں  تم یہ نہ سمجھو کہ موت کے ڈر سے طوالت سے کام لے رہا ہے۔“پھر کفار سے فرمایا: 
وَ لَسْتُ أُبَالِي حِيْنَ أُقتَلُ مُسْلِماً
عَلٰى أَيِّ جَنْبٍ كَانَ فِي الله مَصْرَعِي
یعنی میرا خاتمہ اسلام پر ہو رہا ہے مجھے اب کوئی پرواہ نہیں  کہ میں  کس سمت دار پر لٹکایا جاؤں  کیونکہ جس پہلو پر بھی میری جان جانِ آفرین کے سپرد ہو گی اس کا شمار خدائے وحدہ لا شریک کے ماننے والوں  میں  ہی ہو گا۔ 
پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بے قرار ہو کر عرض کی: ”اے میرے مولیٰ! تو جانتا ہے کہ یہاں  میرا کوئی رفیق نہیں  جو تیرے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک میرا سلام پہنچا سکے پس تو خود ہی میرا سلام پہنچا دینا۔“ 
اے صبا مصطفےٰ سے کہہ دینا غم کے مارے سلام کہتے ہیں
یاد کرتے ہیں  تم کو شام و سحر غم کے مارے سلام کہتے ہیں
اور امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے کیا خوب کہا ہے: 
میں  جو یُوں  مدینے جاتا تو کچھ اور بات ہوتی
کبھی لَوٹ کر نہ آتا تو کچھ اور بات ہوتی