Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
34 - 70
گا؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اس کی کیا مجال جو آپ کے بیٹے کا بال بھی بیکا کر سکے، یقیناً آپ کا جگر گوشہ ہی اس ہاتھی کو جہنم رسید کرے گا۔ چنانچہ، حق و باطل کے اس معرکے میں  حضرتِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کمالِ شجاعت و مہارت سے اس یہودی کو واصل جہنم کر دیا۔ اس پر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خوش ہو کر ارشاد فرمایا: ’’ میرے چچا اور ماموں  تم پر قربان۔ ‘‘ نیز فرمایا: ’’ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری (وفادار دوست) ہوتا ہے اور زبیر میرے حواری اور میرے پھوپھی کے بیٹے ہیں۔(1)
ایک روایت میں  ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب یاسر پہلوان کو واصلِ جہنم کر کے لوٹے تو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کمالِ محبت و شفقت سے آگے بڑھ کر آپ کو گلے لگا لیا اور دونوں  آنکھوں  کے درمیان بوسہ دیا۔(2)
سب سے زیادہ بہادر:
ایک بار امیر المومنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے ایک شخص نے استفسار کیا: ”اے ابوالحسن! لوگوں  میں  سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟“ تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرتِ سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)… کتاب المغازی للواقدی، باب غزوہ خیبر، ج۲، ص۶۵۷
(2)… تاریخ مدینہ دمشق ، باب  زبیربن عوام، ج۱۸، ص۳۸۱