Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
33 - 70
جاں  نثاری کے جذبے سے سرشار حضرت سیِّدُنا محمد بن مسلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اس دشمن اسلام کا غرور خاک میں  ملانے کے لیے نکلے اور اسے جہنم کی وادیوں  کی سیر کے لئے سفر آخرت پر روانہ کر دیا۔ پھر یہود کے ایک اور نامی گرامی طاقتور پہلوان نے میدان میں  اتر کر دعوتِ مبارزت دی، یہودیوں  کے اس پہلوان کا نام یاسر تھا، یہ بڑا ہی ماہر نیزہ باز تھا جس کی شہرت بڑی دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی لاف زنی (شیخی، خود ستائی) کا منہ بند کرنے کے لئے جب شیرِ خدا سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم میدانِ کارزار میں  قدم رکھنے لگے تو حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: ’’اے علی! میں  آپ کو قسم دیتا ہوں  کہ اس ناہنجار کا سر قلم کرنے کے لئے میں  ہی کافی ہوں  بس آپ مجھے اجازت دیں۔‘‘
پس حضرتِ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرتِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بات مان لی۔ جب یاسر پہلوان اپنے چھوٹے سے نیزے کو ہلاتا اور لوگوں  کو ہنکاتا غرور و تکبر سے پھنکارتا آگے بڑھا تو حضرتِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی اس کا غرور و نخوت سے بھرا سر پاؤں  تلے کچلنے کے لئے میدانِ کارزار کی جانب بڑھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے جب یہ دیکھا کہ ان کا لختِ جگر ہاتھی نما یہودی سے نبرد آزما ہونے کے لئے بڑھ رہا ہے تو عرض کی: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیا میرا بیٹا اس مغرور یہودی کے ہاتھوں  جامِ شہادت نوش کرے