Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
31 - 70
تَعَالٰی عَنْہ جوشِ جہاد میں  بھرے ہوئے مقابلے کے لیے اپنی صف سے نکلے تو یہ دیکھا کہ اس کی دونوں  آنکھوں  کے سوا اس کے بدن کا کوئی حصہ ایسا نہیں  ہے جو لوہے میں  چھپاہوا نہ ہو۔ آپ نے تاک کر اس کی آنکھ میں  اس زور سے برچھی ماری کہ برچھی اس کی آنکھ کو چھیدتی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی میں  چبھ گئی اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرااورفوراًہی مرگیا۔حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جب اس کی لاش پر پاؤں  رکھ کر پوری طاقت سے برچھی کو کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن برچھی کا سرا مڑکر خم ہوگیا تھا۔یہ برچھی ایک باکرامت یادگار بن کر برسوں  تک تبرک بنی رہی۔ حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے یہ برچھی طلب فرمالی اوراس کو اپنے پاس رکھا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد خلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے پاس یکے بعد دیگرے منتقل ہوتی رہی اوریہ حضرات اعزاز و احترام کے ساتھ اس برچھی کی خاص حفاظت فرماتے رہے۔ پھر حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے فرزندحضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس آگئی یہاں  تک کہ    ۷۳ھ میں  جب بنو امیہ کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کر دیا تو یہ برچھی بنوامیہ کے قبضہ میں  چلی گئی۔ پھر اسکے بعد لاپتہ ہو گئی۔(1)
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)…صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب۱۲، الحدیث:۳۹۹۸،ج۳،ص۱۸وحاشیۃ  البخاری، کتاب المغازی، ج۲، ص۵۷۰ و اسد الغابۃ، عبداللّٰہ بن الزبیربن العوام،  ج۳، ص۲۴۵،۲۴۸