Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
29 - 70
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس کم سن مہاجر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جب دوسری بار ہجرت کاحکم ہوا اور مسلمانوں  نے مکہ مکرمہ کو خیرآباد کہہ کر مدینہ منورہ کی مقدس سرزمین پر قدم رکھا تو سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے سوا کوئی بھی صحابی اپنے پورے خاندان کے ساتھ ہجرت نہ کر سکا بلکہ ان کے اہلِ خانہ فرداً فرداً مدینہ منورہ پہنچے۔ چنانچہ، مروی ہے کہ حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے سوا کسی صحابی نے اپنی والدہ کے ساتھ ہجرت نہ کی۔(1)
شجاعت و بہادری
 اسلام لانے کی وجہ سے جہاں  دیگر مسلمانوں  کو بہت سی تکالیف کا سامنا تھا وہیں  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  بھی مشرکینِ مکہ کی شر انگیزیوں  سے محفوظ نہ رہے۔ ہجرت سے قبل مسلمان جس کرب و تکلیف کا شکار تھے اس کا اندازہ کفر کے ایوانوں  میں  نیکی کی دعوت عام کرنے والوں  کو ہی ہو سکتا ہے اور اس وقت اسلام کی اشاعت و ترویج کے لئے صبر و تحمل جیسے اوصاف کا حامل ہونا از بس ضروری تھا۔ لہٰذا ابتدائے اسلام میں  مسلمانوں  پر بہت سخت آزمائشیں  آئیں  مگر انہوں  نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا اور جب مدینہ منورہ میں  باقاعدہ ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں  آیا تو اسکی حفاظت کے لئے انہوں  نے میدانِ کارزار میں  اپنے خون سے شجاعت کی ایسی داستانیں  لکھیں  کہ دنیا آج تک حیران ہے۔
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)…الوافی بالوفیات، الزبیر احد العشرۃ، ج ۱۴، ص۱۲۲