Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
28 - 70
سرکوبی کے لئے روانہ ہوئے اور دریائے نیل کے دوسرے کنارے پر جہاں  اس باغی سے آمنا سامنا ہونا متوقع تھا، جا ٹھہرے تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے آپس میں  مشورہ کیا کہ دریا کی دوسری جانب جا کر کسی شخص کو وہاں  کے حالات معلوم کر کے آنا چاہئے۔ چنانچہ، 
حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جو اس وقت تمام مہاجرین میں  سب سے کم عمر تھے، نے خود کو اس خدمت کے لئے پیش کرتے ہوئے عرض کی: اس خدمت کی بجاآوری کی سعادت مجھے سونپی جائے۔ تو سب ان کی کم عمری پر متعجب ہوئے مگر ان کے جذبے کو سراہا اور آخرکار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے اصرار پر انہیں  بھیجنے پر رضا مند ہو گئے۔ حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو بحفاظت دریا کے دوسرے کنارے تک تیر کر پہنچانے کے لئے یہ ترکیب بنائی گئی کہ ایک مشکیزے میں  ہوا بھری گئی اور آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  اس مشکیزے کے ذریعے تیر کر آسانی سے دریا کے دوسری طرف پہنچ گئے اور واپس اس حال میں  لوٹے کہ خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھےاورسب کویہ خوشخبری دی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت نجاشی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو فتح عطا فرمائی ہے۔ یہ سنکر سب اس قدر خوش ہوئے گویا اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے۔(1) 
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)…السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، فرح المھاجرین بنصرۃ النجاشی علی عدوہ، ج۱، ص۳۱۵