وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:جب تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرنے لگے گا۔ عرض کی: میرا اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کا تعلق کب استوار ہو گا؟ ارشاد فرمایا: جب تو اس کے رسول کو (ہر شے سے) محبوب جانے گا۔ عرض کی: محبتِ رسول کا حقدار کیسے بنا جا سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: جب تو ان کےطریقےکی پیروی کرے اور ان کی سنّتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے گا، اور تیری محبت و نفرت اور دوستی و دشمنی کا محور انہی کی ذات سے وابستہ ہو جائے گا تو تو محبت رسول کا شرف پا لے گا اور یاد رکھنا کہ لوگوں کے ایمان وکفر میں مقام ومرتبہ کی پہچان کا معیار یہ ہے کہ جس قدر وہ مجھے محبوب جانیں گے ایمان کے نزدیک ہوں گے اور جس قدر مجھ سے بغض رکھیں گے ایمان سے دور اور کفر کے نزدیک ہوں گے۔ خبردار! اس کاایمان نہیں جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب سے پیار نہیں۔(1)
پیارےاسلامی بھائیو! ذراغورفرمائیے!اوراپنےاندر جھانک کر دیکھئے کہ ہم محبت کے کس مقام پر فائز ہیں۔ محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو محبوب کو پسند ہو وہی اپنایا جائے اور جو ناپسند ہو اسے دیکھا بھی نہ جائے مگر ہم عاشقِ مصطفےٰ ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود سنّتِ مصطفےٰ سے کوسوں دور اور فرنگی تہذیب وثقافت کے نشے میں چور ہیں۔ سنّتوں پر عمل تو کجا فرائض کو بھی فراموش کئے ہوئے ہیں۔
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)…دلائل الخیرات مترجم، فی فضائل الصلوۃ، ص۲۰۶