بہادری و جواں مردی کا درس دیا تھا وہ ساری زندگی آپ پر غالب رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ شیطانی افواہ سنتے ہی بے دھڑک ننگی تلوار لے کر بہادرانِ عرب کا نام دنیا سے مٹانے چل پڑے۔ چنانچہ،
امام ابو نُعَیْم احمد بن عبد اللہ اصفہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (مُتَوَفّٰی۴۳۰ھ) حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء میں فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حفاظت وحمایت میں تلوار اُٹھانے کی سعادت پائی وہ حضرت سیِّدُنا زُبَیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں۔(1)
مجاہدین کے سرخیل:
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ”مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِہَا کَانَ لَہُ أَجْرُھَا وَمِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِہَا، لَا یَنْقُصُ مِنْ أُجُورِھِمْ شَیْئًا۔“ یعنی جو کوئی اچھا طریقہ ایجاد کرے اور اس پر عمل کیا جائے تو عمل کرنے والوں کو جس قدر اجر وثواب ملے گا ایجاد کرنےوالے کو بھی اسی قدر اجر ملے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر و ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔(2)
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)…حلیۃ الاولیاء، الرقم ۶ الزبیر بن العوّام، الحدیث:۲۸۰، ج۱، ص۱۳۲
(2)…سنن ابن ماجہ، المقدمۃ، الحدیث:۲۰۳، ج۱، ص۱۳۴