مروی ہے کہ ایک بار ایک لڑکا حضرت سَیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: زبیر کہاں ہیں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دریافت فرمایا: تم اس کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہو؟ بولا: میں ان سے کشتی کرنا چاہتا ہوں۔ تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بڑی خوشی سے بتا دیا کہ حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کہاں ہیں۔ جب اس لڑکے نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کشتی کی تو آپ نہ صرف اس پر غالب آ گئے بلکہ اس کا ہاتھ بھی توڑ دیا۔ اس لڑکے کو حضرت سَیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس لایا گیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اسے تکلیف میں مبتلا دیکھ کر پوچھا:
کَیْفَ وَجَدْتَّ زَبْرَا اَ اَقِطاً و تَمْرَا
اَو مُشْمَعِلًّا صَقْرَا
ترجمہ: ذرا یہ تو بتاتے جاؤ کہ زبیر کو کیسا پایا؟ کیا اسے پنیر یا کھجور سمجھ کر کھا گئے یا اسے چاق و چوبند شکرے کی طرح پایا جو تمہیں کھا گیا؟(1)
مجاہد اوّل:
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی والدہ ماجدہ حضرت سَیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی تربیت نے اپنا اثر دکھایا اور انہوں نے بچپن میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو جس
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)…الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، الرقم ۲۷۹۶ الزبیر بن العوّام، ج۲، ص۴۵۸