دریافت کرنے آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ حضرت سَیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا اپنے لختِ جگر کو ڈانٹنے کے ساتھ ساتھ مار بھی رہی ہیں تو اس سے رہا نہ گیا اور بولا یہ کیا کر رہی ہیں ؟ بھلا ان نازک کلیوں کو اس طرح مارا جاتا ہے۔ تو آپ نے جواب میں یہ اشعار پڑھے:
مَنْ قَالَ اِنِّیْ أُبْغِضُہُ فَقَدْ کَذَبْ وَاِنَّمَا أَضْرِبُہُ لِکَی یُلَبّ
وَیَہْزِمَ الْجَیْشَ وَیَاْتِی بِالسَّلَبْ وَلَا یَکُنْ لِّمَالِہِ خَبَاٌ مُخَبْ
یَأْکُلُ فِی الْبَیْتِ مِنْ تَمْرٍ وَّحَبْ
یعنی جو یہ کہے کہ میں اسے ناپسند کرتی ہوں وہ جھوٹا ہے، میں تو اسے اس لئے مار رہی ہوں تا کہ یہ بہادری و دانائی کا علمبردار بنے، دشمن کے لشکروں کو اکیلا ہی پچھاڑ کر رکھ دے اور ان کے مال واسباب کو بطورِ غنیمت چھین لائے، اس کے مال پر نظر رکھنے والوں کو چھپنے کی کوئی جگہ نہ ملے اور یہ آزادی سے گھر میں خوب کھاتا پیتا ہے (اگر یہ مجھے ناپسند ہوتاتواس طرح آزادی سے نہ کھاتا پیتا)۔(1)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سَیِّدَتُناصفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے لختِ جگر کی جو تربیت کی تھی اس کی جھلک حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بچپن سے لے کر وقتِ وصال تک بڑی واضح رہی۔ چنانچہ،
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)… الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، الرقم ۲۷۹۶ الزبیر بن العوّام، ج۲، ص۴۵۸