Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
18 - 70
یہودی کا سر تن سے جدا کر دیا اور پھر حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  سے فرمایا کہ اب اس کا سر باہر موجود یہودیوں  کی جانب پھینک دیں  مگر انہوں  نے اس سے بھی معذرت کر لی تو آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے خود ہی آگے بڑھ کر اس کا سر مکان سے باہر پھینک دیا۔ جب دوسرے شر پسند یہودیوں  نے اپنے ساتھی کا حال دیکھا تو فوراً دُم دبا کر یہ کہتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے کہ ہمیں  تو یہ پتہ چلا تھا کہ خواتین کی حفاظت پر کسی کو مقرر نہیں  کیا گیا مگر اندر تو محافظ موجود ہیں۔(1)
اندازِ تربیت: 
میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ   کے والد کے بعد جب آپ کی تربیت کی تمام ذمہ داری حضرت سَیِّدَتُنا صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ناتواں  کندھوں  پر آن پڑی، آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو اپنی ذمہ داری کا خوب احساس تھا یہی وجہ ہے کہ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ   کی تربیت میں  کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رہنے دیا یعنی کسی لمحہ ان کی تربیت سے غافل نہ ہوئیں۔ چنانچہ، 
مروی ہے کہ باپ کے وصال کے بعد حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنے چچا نوفل بن خویلد کی زیرِ کفالت تھے۔ ایک دن وہ خیر وعافیت
مــــــــــــــــدینـــہ
(1)…البحر الزخار، مسند الزبیر بن العوام، الحدیث:۹۷۸، ج۳، ص۱۹۱۔ مفھوماً